Please wait..

(۱۵)

 
اک دانشِ نورانی، اک دانشِ بُرہانی
ہے دانشِ برہانی، حیرت کی فراوانی

معانی: دانشِ نورانی: نور سے بھری ہوئی عقل جو انسان کے دل و دماغ کو منور کر دے ۔ اور اسے حقیقتوں کو پہچاننے کے قابل بنا دے ۔ یہ عقل نور ایمان اور نور یقین کے مترادف ہے ۔ دانش برہانی: حکمت و فلسفہ کا علم، وہ عقل جس میں فلسفیانہ دلیلوں سے کام لیا جائے ۔ یہ یقینی طور پر حقیقتوں تک نہیں پہنچاتی اور عموماً دلیلوں ہی کے اندھیرے میں چکر لگاتی رہتی ہے ۔ حیرت کی فراوانی: حیرانی کی زیادتی ۔
مطلب: اس غزل کے مطلع میں اقبال نے دانش نورانی اور دانش برہانی کے مابین فرق کو واضح کیا ہے ان کے مطابق ایک دانش تو وہ ہوتی ہے جو نور ایمان اور نور یقین کے امتزاج سے جنم لیتی ہے اور قلب و روح کو منور کر دیتی ہے ۔ اس کے برعکس دانش برہانی کا تعلق تعقل اور استدلال سے ہے جس سے حقائق تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے ۔ اور دلائل کی بھول بھلیاں میں ہی گردش کرتی رہتی ہے ۔ اس سے انسان کے اندر تجسس میں تو اضافہ ہوضرور ہوتا ہے لیکن یہ کسی بنیادی نتیجے پر پہنچنے میں مددگار ثابت نہیں ہوتی ۔

 
اس پیکرِ خاکی میں اک شے ہے، سو وہ تیری
میرے لیے مشکل ہے اس شے کی نگہبانی

معانی: پیکر خاکی: مٹی کا بدن، مراد انسانی جسم ۔ نگہبانی: اس کو قابو میں رکھنا مشکل ہے ۔
مطلب: انسانی جسم میں ایک ایسی شے ہے جو تیری نذر کے قابل ہے اور وہ شے روح ہے یہی سبب ہے کہ میرے لیے اس کا تحفظ ممکن نہیں ۔

 
اب کیا جو فغاں میری پہنچی ہے ستاروں تک
تو نے ہی سکھائی تھی مجھ کو یہ غزل خوانی

مطلب: فغاں : فریاد ۔ ستاروں تک: آسمان تک ۔ غزل خوانی: غزل پڑھنا، یعنی شاعری کرنا ۔
مطلب: میری آہ فریاد اب اگر ستاروں تک جا پہنچی ہے تو یہ تو ایک فطری امر ہے ۔ اس میں میرا کیا قصور ہو سکتا ہے جب کہ شعر کے ذریعے اظہار کا جوہر تو اے خدا تو نے ہی مجھے عطا کیا ہے ۔

 
ہو نقش اگر باطل، تکرار سے کیا حاصل
کیا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی یہ ارزانی

معانی: تکرار: جھگڑا ۔ ارزانی : سستا یعنی ذلیل ہونا ۔
مطلب: انسان جس طرح سے فنا و بقا کے مراحل سے گزرتے ہیں اس سے تو اس امر کا اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی وجود ایک نقش باطل کی طرح تھا جب چاہا اسے تیرے قبضہ قدرت نے ختم کر ڈالا لیکن یہ تو بتا کہ انسان جس کو تو نے خود تخلیق کیا اور فرشتوں سے بھی افضل قرار دیا پھر اس آسانی سے اس کو فنا کرنے اور اس کی ناقدری کیا خود تیرے لیے باعث مسرت ہے ۔

 
مجھ کو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقی
اس دور کے مُلّا ہیں کیوں ننگِ مسلمانی

معانی: زندیقی: ظاہری ایمان، گمراہی ۔ ننگِ مسلمانی: اسلام کو بدنام کرنے والے ۔
مطلب: تسلیم کہ مغرب کی تعلیم و تہذیب نے مجھے تو مذہب سے لا تعلق کر دیا لیکن اس عہد کے ملا پر تو مغربی تہذیب و علوم کا سایہ تک نہیں پڑا پھر کیا وجہ ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ مذہب سے لا تعلق ہے بلکہ اس کے لئے باعث ننگ ہو کر رہ گیا ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ملا بالعموم اپنے مفادات کے لیے اسلام کی غلط تاویلیں کر کے عام لوگوں کو اس سے منحرف کر رہے ہیں ۔

 
تقدیر شکن قوت باقی ہے ابھی اس میں
ناداں جسے کہتے ہیں تقریر کا زندانی

معانی: تقدیر شکن: تقدیر کو بدلنے والی طاقت ۔ تقریر: باتیں کرنے والی ۔ زندانی: قیدی ۔
مطلب: وہ احمق لوگ ہیں جو انسان کو تقدیر کا پابند سمجھتے ہیں جب کہ وہ تقدیر کے خلاف جدوجہد کی قوت بھی رکھتا ہے اور واقع یہ ہے کہ انسان نے اپنی بے ہمتی اور بے عملی کے سبب کسی بھی معاملے کو تقدیر کا نام دے دیا ہے حالانکہ خدا نے انسان کو وہ قوت بھی عطا کی ہے جو نامساعد حالت کو اپنی مرضی کے مطابق بدل ڈالے ۔

 
تیرے بھی صنم خانے، میرے بھی صنم خانے
دونوں کے صنم خاکی، دونوں کے صنم فانی

معانی: صنم خانے: بت خانے ۔ صنم: بت ۔
مطلب: یہ شعر قدرے الجھا ہوا ہے اور اس کی تشریح یوں تو ایک سے زیادہ ہو سکتی ہے تا ہم صحیح تشریح کے لیے خاصی تگ و دو کی ضرورت ہے چونکہ اس غزل کے باقی اشعار میں اقبال خدائے ذوالجلال سے مخاطب ہیں لہذا شعر کے مطابق یہ کہنا غلط ہو گا کہ جس طرح انسان کے بنائے ہوئے بت مٹی کے ہیں اسی طرح خدا نے بھی جو بت بنائے ہیں وہ مٹی کے ہیں ۔ اور دو طرح کے بت فنا ہونے جانے والے ہیں ۔ یہ تصور بھی بے معنی ہے لہذا یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ اس شعر میں اقبال کا مخاطب خدا نہیں بلکہ اور کوئی ہے اور وہ کون ہے یہ امر ایک سوالیہ نشان کی حیثیت رکھتا ہے ۔