(8)
(کابل میں لکھے گئے)
مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا مروّت حُسنِ عالمگیر ہے مردانِ غازی کا
معانی: دل نوازی: دل موہ لینے کا طریقہ ہے ۔ مروت: احسان ۔ حسن: خوبی ۔ مردانِ غازی: اللہ کی راہ میں لڑنے والے ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال نے فرمایا کہ مسلمان کی یہ فطرت ہے اور یہ خصوصیت اس کے لہو میں شامل ہے کہ ہر شخص کے ساتھ خلوص و محبت کے ساتھ پیش آئے ۔ یہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی ہر فرد کے ساتھ مروت سے پیش آنا اس کا نصب العین ہے ۔ اور یہی ان لوگوں کا طرز عمل ہوتا ہے جو راہ حق میں جہاد کرتے ہیں ۔
شکایت ہے مجھے یارب! خداوندانِ مکتب سے سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
معانی: خداوندانِ مکتب: سکولوں اور کالجوں کے سرپرست ۔ خاکبازی: بزدلانہ تعلیم ۔
مطلب: اقبال درسگاہوں کے معلمین کے بارے میں خداوند تعالیٰ سے شکوہ کناں ہیں کہ یہ لوگ شہبازوں کو ایسا سبق دے رہے ہیں جو انہیں پستی میں دھکیل رہا ہے ۔ بالفاظ دگر اقبال مالک حقیقی سے مخاطب ہوتے ہوئے مروجہ نظام تعلیم اور اس سے متعلق کارپردازاں کی نا اہلی کی شکایت کرتے ہیں کہ وہ عملاً مسلمان بچوں کو پستی کی طرف لے جا رہا ہے ۔
بہت مدت کے نخچیروں کا اندازِ نگہ بدلا کہ میں نے فاش کر ڈالا طریقہ شاہبازی کا
معانی: نخچیروں : قیدیوں ۔ نگہ: نظر ۔ فاش کر ڈالا: کھول دیا ۔
مطلب: وہ لوگ جو صدیوں سے ظلم و جبر کا شکار تھے ان میں بیداری کی لہر ابھر رہی ہے اس لیے کہ میں نے اپنی نوائے فکر سے ان کے لہو کو گرما دیا ہے ۔
قلندر جز دو حرف لا الہ کچھ بھی نہیں رکھتا فقیہِ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا
معانی: حرفِ لا الہ: لا الہ کا ذکر ۔
مطلب: مجھ ایسے درویش و قلندر کے پاس تو لفظ لا الٰہ کے سوا اور کچھ بھی نہیں جب کہ فقیہ شہر عربی زبان کی بھاری بھر کم لغت کا حافظ ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی تقریروں میں انتہائی ثقیل اور ایسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے جو کہ عوام الناس کی فہم سے بالاتر ہوتے ہیں ۔ اس کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا کہ سننے والا اس کی مبہم تقریروں سے مرعوب ہو کر رہ جائیں ۔
حدیثِ بادہ و مینا و جام آتی نہیں مجھ کو نہ کر خارا شگافوں سے تقاضا شیشہ سازی کا
معانی: حدیث بادہ ومینا: شراب کی باتیں ۔ خارا شگاف: پتھر توڑ دینے والے ۔ شیشہ سازی: شیشہ بنانا ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ عام شعراء کی مانند میں گل و بلبل اور جام و شراب کے ذکر تک محدود نہیں رہتا بلکہ میری شاعری میں تو ایسے افکار ہوتے ہیں جو حقیقت پسندی پر مبنی ہوں اور قوم کی ترقی و تعمیر میں ممدو معاون ہوں ۔ اگر ان کے اظہار میں میرا لہجہ تلخ ہو جاتا ہے تو یہ ایک فطری بات ہے عربی زبان کا یہ مقولہ میرے پیش نظر رہتا ہے کہ الحق مرہ یعنی سچ ہمیشہ تلخ ہوتا ہے سو اگر سچائی کے اظہار میں میرا شعری لہجہ بھی تلخ ہو جائے تو اس میں حیرت نہیں ہونی چاہیے ۔ چنانچہ مجھ سے ایسے اشعار کی توقع ہی کیوں کی جائے جن کا مقصد محض ذہنی عیاشی کے علاوہ تصنع اور بناوٹ ہو ۔
کہاں سے تو نے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا
معانی: درویشی: بے نیازی ۔ چرچا: ذکر ۔ پادشاہوں : بادشاہوں ۔
مطلب: اس نظم کے مقطع میں اقبال کہتے ہیں کہ بادشاہوں کو بھی اس امر پر یقینا حیرت ہوتی ہے کہ میں نے یہ بے نیازی اور درویشی کہاں سے سیکھی کہ میں اظہار حقیقت کے دوران کسی بادشاہ کی پروا بھی نہیں کرتا اور مجھے سچ کہنے میں کسی لمحے بھی دریغ نہیں ہوتا ۔