Please wait..

(1)

 

اعلیٰ حضرت شہید نادر شاہ غازی کے لطف و کرم سے نومبر 33ء میں مصنف کو حکیم سنائی غزنوی کے مزار مقدس کی زیارت نصیب ہوئی ۔ یہ چند افکار پریشاں جن میں حکیم ہی کے ایک مشہور قصیدے کی پیروی کی گئی ہے اس روز سعید کی یادگار میں سپرد قلم کئے گئے ۔ ما ازپے سنائی و عطار آمدیم

 
سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا
غلط تھا اے جنوں شاید ترا اندازہَ صحرا

معانی: ما از پئے سنائی و عطارآمدیم: ہم حکیم سنائی اور فرید الدین عطار کے بعد آئے(مولانا روم) ۔ پہنائے فطرت: قدرتی کھلی میدان ۔ سودا: جنون ۔ اندازہَ صحرا: صحرا کی وسعت کا اندازہ غلط تھا ۔
مطلب: زیر تشریح نظم بھی انھوں نے حکیم سنائی کے ایک مشہور قصیدے سے متاثر ہو کر اسی اسلوب میں تخلیق کی ہے ۔ اس کے مطلع میں اقبال کہتے ہیں کہ میرے جذبہ عشق میں اتنی شدت اور وسعت ہے کہ اگر اس کا احاطہ کیا جائے تو وہ صحرا کی لامحدود پہنائیوں میں بھی نہیں سما سکتا ۔ وہ اس شعر میں اپنی اس جذباتی کیفیت کا اظہار کرتے ہیں جو خود ان کے اپنے اندازے سے بھی کہیں زیادہ شدید ہے ۔ جنون عشق میں روایتی سطح پر صحرا ہی پناہ گاہ ہو سکتا ہے ۔ لیکن اقبال کہتے ہیں کہ میرے لیے تو وسعت صحرا بھی ناکافی ہے ۔

 
خودی سے اس طلسمِ رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں
یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا

معانی: طلسم رنگ و بو: رنگ و بو کا جادو یعنی دنیا کا جادو توڑ سکتے ہیں ۔
مطلب: کائنات کے جو رازہائے سربستہ ہیں وہ محض خودی کے توسط سے ہی منکشف ہو سکتے ہیں اگر یہ طلسم ٹوٹ جائے تو پھر ذات باری تعالیٰ کی حقیقت سامنے آ جاتی ہے ۔ توحید عملاً اسی حقیقت سے ہم آہنگ ہے جسے ابھی تک فی الواقع کوئی بھی سمجھ نہیں سکا ۔

 
نگہ پیدا کر اے غافل تجلی عینِ فطرت ہے
کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا

معانی: تجلی عین فطرت: نور الہٰی فطری ہے ۔
مطلب: انسان عملاً اس حقیقت سے کلی طور پر غافل ہے کہ نور مطلق ہی دراصل فطرت کی حقیقی روح ہے ۔ جس طرح دریا اپنی موجودگی کے بغیر محض ایک ٹھہرے ہوئے پانی کا ذخیرہ بن سکتا ہے ۔ یہی کیفیت نور مطلق کے شعور کے بغیر انسان کی ہے اور بدقسمتی یہ کہ انسان ابھی تک اسی شعور سے بیگانہ ہے ۔

 
رقابت علم و عرفاں میں غلط بینی ہے منبر کی
کہ وہ حلّاج کی سُولی کو سمجھا ہے رقیب اپنا

مطلب: علم و حکمت میں مخالفت اہلِ مسجد (خطیبوں ) کی غلطی ہے ۔ وہ حلاج کی سولی کو اپنا دشمن جانتا ہے یعنی ظاہری طور پر دیکھنے والے عالموں نے غلط فہمی کی بنا پر انھیں ایک دوسرے کا حریف بنا دیا ۔ اس لیے ان لوگوں نے منصور بن حلاج جس کو انا الحق کہنے کی پاداش میں سولی پر چڑھادیا گیا تھا اپنا رقیب سمجھ لیا ۔ یعنی اس کی مخالفت میں کمر بستہ ہو گئے ۔

 
خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں ، غلامی میں
زرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغنا

مطلب: اس شعر میں اقبال نے ایک ایسا اہم نکتہ بیان کیا ہے جو ہمیشہ سے زیادہ آج کی صورتحال میں زیادہ کارآمد ثابت ہو سکتا ہے وہ فرماتے ہیں کہ اقتدار ہو یا محکومی دونوں حالتوں میں سچے اور نیک باطن لوگ حرص و ہوس سے بے نیاز ہو کر ہی انتشار و اضطراب اور بنی نوع کے مسائل سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں یعنی استغنا ایسا عمل ہے جو ہر حالت میں انسان کو تمام مسائل و آلام سے محفوظ رکھتا ہے ۔

 
نہ کر تقلید اے جبریل میرے جذب و مستی کی
تن آسانی عرشیوں کو ذکر و تسبیح و طواف اولیٰ

مطلب: اس شعر میں اقبال فرشتوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ تم ہم ایسے عمل پسند اور عشق حقیقی میں سرشار لوگوں کی تقلید کیا کرو گے کہ تمہارے نزدیک تو ہر لمحہ ذکر خداوندی، تسبیح خوانی اور عرش الہٰی کا طواف ہی کافی ہے ۔ جب کہ عشق حقیقی کی راہیں بے حد کٹھن ہیں ۔ اس حقیقت کا عرفان تمہیں ہو ہی نہیں سکتا ۔

*

 
بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے
یہاں ساقی نہیں پیدا، وہاں بے ذوق ہے صہبا

مطلب: اس شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ مشرق و مغرب کے مابین جو تضاد ہے وہ بالکل واضح ہے ۔ عملاً اس شعر میں وہ مشرقی اور مغربی تہذیب و علوم کا موازنہ یوں کرتے ہیں کہ یہ بدقسمتی ہے کی مشرق میں بے پناہ علوم و فنون موجود ہیں لیکن ان کو وسعت دینے کی صلاحیت سے اہل مشرق محروم ہیں ۔ اس کے مقابلے میں اہل مغرب اپنے علم و فن کو وسعت دینے کی صلاحیت تو رکھتے ہیں لیکن ان علوم و فنون میں وہ روح نہیں جو انسان پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے ۔ بالفاظ دگر مغربی تہذیب و علوم راہ حق دکھانے کے بجائے صرف مادی افادیت سے ہم کنار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور بس ۔

 
نہ ایراں میں رہے باقی، نہ توراں میں رہے باقی
وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاک قیصر و کسریٰ

مطلب: جن اہل حق اور جرات مند انسانوں نے روم و ایران کی سلطنتوں اور تہذیب کو اپنی حق گوئی بے باکی اور جرات و شجاعت سے خاک میں ملا کر رکھ دیا تھا اب وہ شخصیتیں نہ تو ایران میں باقی ہیں نہ توران میں ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مشرق کے اسلامی ملک اب ایسے صاحب کردار اور جانباز فرمانرواؤں سے محروم ہو چکے ہیں جن کی شان و شوکت اور دبدبہ ہر طرف پھیلا ہوا تھا ۔ اب تو صورت حال یکسر بدل گئی ہے ۔

 
یہی شیخِ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیمِ بوذر و دلقِ اویس و چادرِ زہرا

معانی: شیخ حرم: مسجد کا مولوی ۔ گلیم بوذر: ابوذر غفاری کی چادر ۔ دَلقِ اویس: حضرت اویس قرنی کی گدی ۔ چادر زہرا: حضرت فاطمۃ الزہرا کی چادر ۔
مطلب: اقبال عرب ممالک کی صورت حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ وہ ممالک تھے جنہیں کعبہ کا سردار کہا جاتا تھا لیکن اب کیفیت یہ ہے کہ یہاں کے سرداروں نے ابوذر غفاری کی گدڑی ، حضرت اویس قرنی کا خرقہ اور سیدہ فاطمتہ الزہرہ سلام اللہ علیہا کی چادر تک بیچ کھائی ہے ۔ اقبال کا مفہوم یہ ہے کہ عرب کے سردار غیرت و حمیت سے محروم ہو چکے ہیں اور انھوں نے اپنے باوقار اور صاحب کردار آباء و اجداد کا ترکہ بھی داوَ پر لگا دیا ہے ۔ وہ تمام اسلامی اور انسانی خصوصیات سے محروم ہو چکے ہیں ۔ ان کے نزدیک تو عیاشی اور شکم پروری ہی سب کچھ ہے ۔ اس مقصد کے لیے وہ نچلی سے نچلی سطح تک جانے کو تیار ہیں ۔

 
حضورِ حق میں اسرافیل نے میری شکایت کی
یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے برپا

معانی: اسرافیل: فرشتہ جو صور پھونکنے پر مقرر ہے ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ اقبال حضرت اسرافیل کے حوالے سے اپنی حق گوئی اور بے باکی کا ذکر یوں کرتے ہیں کہ فرشتوں کو بھی اس امر کا خوف ہے کہ میری یہ صلاحتیں اور جرات مندی کہیں قیامت سے پہلے قیامت برپا نہ کر دے چنانچہ انھوں نے اس امر کی خداوند تعالیٰ کے روبرو شکایت کی ۔

 
ندا آئی کہ آشوبِ قیامت سے یہ کیا کم ہے
گرفتہ چینیاں احرام و مکی خفتہ در بطحا

مطلب: اس شعر کے مطابق فرشتے کی شکایت کے جواب میں عرش معلی سے آواز آئی کہ یہ حقیقت ہی قیامت سے کیا کم ہے کہ کعبہ سے ہزاروں میل دور رہنے والے اہل چین تو عمرہ و حج کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں جب کہ خود اہل مکہ کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ وہ خانہ کعبہ کے نواحات میں خواب خرگوش میں مبتلا ہیں ۔ اقبال کے اس شعر کا دوسرا مصرعہ حکیم سنائی کے قصیدے سے اقتباس ہے ۔

 
لبالب شیشہَ تہذیبِ حاضر ہے مئے لا سے
مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہَ اِلَّا

مطلب: مغربی تہذیب کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مغرب میں تو اب خدا کی ذات سے بھی انکار ہو رہا ہے اور کوئی اس کے احکام کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ۔ عملاً وہاں ابلیس کی حکمرانی ہے ۔ اس کے برعکس وہاں کوئی بھی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو اہل مغرب کو خدا کے وجود اور اس کے احکامات کو تسلیم کرنے پر آمادہ کر سکے ۔

 
دبا رکھا ہے اس کو زخمہ ور کی تیز دستی نے
بہت نیچے سُروں میں ہے ابھی یورپ کا واویلا

معانی: زخمہ ور: ساز کو چوٹ لگانے والا ۔ تیز دستی: تیز ہاتھ نے دبا رکھا ہے ۔ بہت نیچے سروں میں ہے ابھی یورپ کا واویلا: یورپ کا شور و غوغا ابھی بہت مدھم ہے ۔
مطلب: افکار خداوندی اور اس کے احکامات کی عدم تکمیل کے سبب مغرب میں جو انتشار و اضطراب کا غلغلہ ہے ہر چند کی اس کو خوش آئند نعروں اور اسی نوع کی دوسری چیزوں نے عارضی طور پر دبا رکھا ہے لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چل سکے گا ۔ بالاخر اس صورت حال کا ردعمل کسی نہ کسی شکل میں واضح ہو کر سامنے آئے گا ۔

 
اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موجِ تُند جولاں بھی
نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ و بالا

معانی: تند جولاں : تیز چلنے والی لہر ۔ نہنگوں : مگر مچھوں ۔ نشیمن: گھر ۔ تہ و بالا: برباد ہو جاتے ہیں ۔
مطلب: ہر چند کی یورپ اس وقت بڑی طاقتوں کا مرکز ہے اس نے دنیاوی سطح پر بھی بڑی ترقی کر لی ہے لیکن آخر کار وہاں موجود تہذیب ہی ان طاقتوں کی تباہی کا سبب بنے گی ۔

*

 
غلامی کیا ہے ذوقِ حسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے، ہے وہی زیبا

مطلب: حقیقت یہ ہے کہ اس قصیدہ نما نظم میں علامہ اقبال نے ایک سے زیادہ موضوعات کو اپنے اظہار میں پیش نظر رکھا ہے ۔ آئندہ جو تین اشعار ہیں ان میں اپنے نقطہ نظر سے غلامی او آزادی کا تجزیہ کیا ہے ۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ غلامی دراصل حسن و زیبائی سے محرومی کا نام ہے ۔ اور فکر و عمل کی آزادی کے بغیر کوئی شخص بھی آزاد تصور نہیں کہا جا سکتانا ہی اس کی رائے کو کوئی اہمیت دی جا سکتی ہے ۔

 
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا

معانی: بصیرت: عقل مندی کی نظر ۔ مردانِ حُر: آزاد مرد ۔ بینا: دیکھنے والی آنکھ ۔
مطلب: اس شعر میں بھی گزشتہ شعر کے موضوع کے تسلسل میں علامہ نے کہا ہے کہ غلاموں کی بصیرت بھی ناقابل اعتماد ہوتی ہے اس لیے کہ بصیرت تو صرف ان مردان حر کے پاس ہوتی ہے جو بلاخوف و خطر حالات و واقعات کا جائزہ لینے کے لیے اپنی آنکھیں کھلی رکھتے ہیں ۔

 
وہی ہے صاحبِ امروز جس نے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہرِ فردا

معانی: صاحب امروز: وقت کی نبض پہچاننے والا ۔ گوہرِ فردا: کل کا موتی یعنی آئندہ آنے والی نعمت ۔
مطلب: وہی آج کے عہد کا کامیاب و کامران قائد ہے جو اپنی ہمت و صلاحیت کے بل بوتے پر مستقبل کے متوقع مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے ان سے نمٹنے کی قدرت رکھتا ہو ۔ مقصد یہ کہ عہد حال میں جو کچھ آنکھوں کے سامنے عمل میں آ رہا ہے اس کا اندازہ تو قریب قریب ہر سمجھدار شخص کو ہو سکتا ہے لیکن حقیقی رہنما وہی ہوتا ہے جو اپنی دوربیں نگاہوں اور ادراک و شعور سے مستقبل میں وجود پذیر ہونے والے معاملات تک رسائی حاصل کر سکے ۔ ایسا شخص ہی اپنے دور کے علاوہ آئندہ عہد کی نسلوں کی رہنمائی کا حقدار ہو تاہے ۔

*

 
فرنگی شیشہ گر کے فن سے پتھر ہو گئے پانی
مری اکسیر نے شیشے کو بخشی سختیِ خارا

مطلب: مذکورہ بالا تین اشعار کے بعد اقبال پھر اپنا موضوع بدلتے ہیں ۔ ان کے مطابق اہل یورپ نے مشرق کی مستحکم اور باوقار قوتوں کو اپنی شعبدہ بازی اور مکاری کے ذریعے ان کی تمام صلاحیتوں اور قوتوں سے محروم کر رکھا ہے ۔ لیکن مجھے قدرت نے ایسی توفیق عطا کر دی ہے کہ جس کے ذریعے میں اہل مشرق میں ہمت اور مقابلے کی استطاعت پیدا کر سکوں ۔

 
رہے ہیں اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک
مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے یدِ بیضا

معانی: ہر چند کہ اس عہد کے فرعون میرے افکار کے شدت سے مخالف ہیں اور ہر لمحے مجھے شکست سے ہمکنار کرنے کے لیے اپنے جال بچھائے رہتے ہیں لیکن جس طرح فرعون کے بالمقابل حضرت موسیٰ ید بیضا سے کام لیتے تھے اسی طرح میرے افکار و عمل اور قدرت خداوندی پر اعتماد کا جذبہ میرے دشمن فراعین کے لیے یدبیضا کی سی حیثیت رکھتے ہی ۔

 
وہ چنگاری خس و خاشاک سے کس طرح دب جائے
جسے حق نے کیا ہو نیستاں کے واسطے پیدا

معانی: نیستاں : بانس کا جنگل ۔
مطلب: اس مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے علامہ زیر تشریح شعر میں یوں گویا ہیں کہ میرا فکر و عمل کسی منفی قوت سے ناکارہ نہیں ہو سکتا ۔ مجھے یقین ہے کہ اس سے مشرق کی اقوام میں عزم و ہمت کی ایک نئی لہر اور جذبہ پیدا ہو جائے گا ۔ اس لیے کہ یہ قوت و صلاحیت مجھے خود ذات باری تعالیٰ نے عطا کی ہے ۔

 
محبت خویشتن بینی، محبت خویشتن داری
محبت آستانِ قیصر و کسریٰ سے بے پروا

مطلب: وہ عشق جو مجھے ذات رسول مقبول سے ہے وہ اپنی حقیقت کو پہچاننے میں مددگار ثابت ہوتا ہے لیکن ضروری ہے کہ اس جذبہ عشق پر قائم رہنے اور اسے برقرار رکھنے میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا جائے کہ یہ عشق تو قیصر و کسریٰ جیسے بادشاہوں کے آستانوں سے حاصل ہونے والی عزت و حرمت سے بھی بے نیاز کر دیتا ہے ۔ مراد یہ کہ حضور سے عشق ہی وہ مقتدر جذبہ ہے جس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی ۔

 
عجب کیا گر مہَ و پرویں مرے نخچیر ہو جائیں
کہ برفتراک صاحب دولتے بستم سرِ خودرا

مطلب: اس شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ میں ارتقاء کے ان مراحل سے گزر رہا ہوں جن کی بنیاد پر چاند اور ثریا پر اپنا تسلط جما لوں تو کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ میں تو ذہن اور فطری طور پر اس بلند و بالا ہستی کے خاک پا کی حیثیت رکھتا ہوں جو نبی آخر الزماں ہے اور ازل سے ابد تک پوری کائنات میں اس کا کوئی ہمسر نہیں ۔ چنانچہ اس بلند و بالا شخصیت کے طفیل اگر میں کوئی اعلیٰ مرتبہ حاصل کر لوں تو حیرت نہیں ہونی چاہیے ۔

 
وہ دانائے سبل ختم الرُسل مولائے کُل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا

معانی: دانائے سبل: راستے جاننے والا ۔ ختم الرسل: آخری رسول ۔ مولائے کل: تمام انسانوں کا رہنما ۔ غبارِ راہ: رستے کی دھول ۔ فروغ: ترقی، بلندی ۔ وادیِ سینا: سینا کی وادی کی عظمت ۔
مطلب: حضور مقبول کی ذات والا صفات تو عقل و دانش کی کلیت سے ہم آہنگ ہے ۔ یہی وہ ذات پاک ہے جو خداوند عزوجل تک رسائی کی ضمانت دے سکتی ہے ۔ یہ وہ ذات والا صفات ہے جس پر اس دنیا میں آنے والے انبیاء اور پیغمبروں کا سلسلہ ختم ہوا کہ وہی تو نبی آخر الزماں ہیں ۔ اور وہی اس پوری کائنات کے آقا و مولا ہیں ۔ انہی کی خاطر یہ کائنات وجود میں آئی ۔ یہی وہ ذات پاک ہے جو راستے کی گرد کو بھی کوہ طور کی تجلیوں میں ڈھالنے کی قدرت رکھتی ہے ۔

 
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں ، وہی فرقاں ، وہی یٰسیں ، وہی طہٰ

معانی: نگاہِ عشق و مستی: عشق کے معاملات ۔ وہی اول وہی آخر: وہی ابتدا ہے اور وہی انتہا ۔
مطلب: پیغمبر آخر الزماں کی عظمت بیان کرتے ہوئے علامہ فرماتے ہیں کہ یہی ذات والا صفات ہے جو نگاہ عشق و مستی میں سب سے ارفع و اعلیٰ ہے ۔ اور اس کائنات میں جس کی تخلیق سب سے پہلے ہوئی اور جس کی شخصیت دنیا کے آخری مرحلے تک برقرار رہے گی ۔ یہی وہ ہستی ہے جو اخلاق قرآنی کا مکمل نمونہ تھی ۔ یہی ہستی قرآن بھی تھی اور اس کو یٰسین و طہٰ کے القابات سے یاد کیا گیا ہے ۔

 
سنائی کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی ورنہ
ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لُولوئے لالا

معانی: غواصی: غوطہ زنی، یعنی گہری تلاش ۔ لولوئے لالا: قیمتی موتی ۔
مطلب: اس قصیدہ نما نظم کو تمام کرتے ہوئے آخری شعر میں علامہ فرماتے ہیں کہ حکیم سنائی کا احترام دامن گیر نہ ہوتا تو حضور ختمی مرتبت کی شان میں اسی نعتیہ قصیدے میں جو بحر استعمال کی گئی ہے اس میں مزید اشعار تخلیق کرتا کہ حضور تو اتنی صفات کے مالک ہیں جن کا شمار انسانی فہم سے بالاتر ہے ۔