جمیعتِ اقوامِ مشرق
پانی بھی مسخر ہے ، ہوا بھی ہے مسخر کیا ہو جو نگاہِ فلکِ پیر بدل جائے
معانی: جمیعتِ اقوام مشرق: مشرقی قوموں کی جمیعت یعنی یو ۔ این ۔ او ۔ مسخر: تسخیر کیا گیا ۔ نگاہ پیر فلک: بوڑھے آسمان کی نظر ۔ فلک:آسمان ۔
مطلب: جس طرح دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد فاتح اقوام نے نیویارک میں ایک اقوام کی جمیعت بنائی ہے اسی طرح پہلی جنگ عظیم کے بعد بھی انہی فاتح اقوام نے اقوام کی ایک جمیعت بنائی تھی جس کا ہیڈکواٹرز یورپ کے ملک سوءٹزرلینڈ کا دارلحکومت جنیوا ہے ۔ علامہ نے اس نظم کے پہلے شعر میں اس پہلی جمیعت اقوام کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی بانی اور اس پر قابض وہ پورپی قو میں ہیں جنھوں نے اپنی بحری اور فضائی قوت سے سمندر بھی تسخیر کر رکھے ہیں اور ہواؤں پر بھی ان کا قبضہ ہے بظاہر ان کی طاقت ختم ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور یہ بوڑھا آسمان ان کے حق میں نظر آتا ہے لیکن کیا خبر ہے کہ کسی وقت اس بوڑھے آسمان کی نظریں ان سے پھر جائیں اور وہ کمزور ہو جائیں ۔
دیکھا ہے ملوکیتِ افرنگ نے جو خواب ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے
معانی: ملوکیت افرنگ: یورپ والوں کی شہنشاہی ۔
مطلب: اہل مغرب اپنی جمیعت اقوام بنا کر مشرق کی کمزور قوموں پر اپنی شہنشاہی نافذ کرنے اور اسے تقویت دینے کے جو خواب دیکھ رکھے ہیں اور مختلف ملکوں اور قوموں کی بندر بانٹ کے جو پروگرام بنا رکھے ہیں کیا خبر ہے کہ قسمت ان کے خوابوں کے نتیجے کو بدل دے اور ان کے پروگرام دھرے کے دھرے رہ جائیں ۔
طہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا شاید کرہَ ارض کی تقدیر بدل جائے
معانی: طہران: ایران کا دارلحکومت ۔ جنیوا: یورپ کے ملک سوءٹزرلیند کا دارلحکومت ۔ کرہَ ارض: زمین کا خطہ ۔
مطلب : علامہ نے اوپر کے دو شعروں میں بوڑھے آسمان کی نگاہ کے بدل جانے اور اہل یورپ کے خوابوں کے نتیجے کے غلط ہو جانے کی جو بات کی ہے وہ محض اس واسطے کی ہے کہ اگر ان مغربی قوموں کی طرح جنھوں نے دنیا پر حکومت کا خواب دیکھنے کے لیے جمیعت اقوام بنا رکھی ہے مشرقی اقوام ان سے چھٹکارا صرف اسی صورت میں حاصل کر نے کے لیے ان کی جمیعت سے الگ ہو کر مشرقی قوموں کی ایک الگ جمیعت اقوام بنا لیں اور ایران کے دارالحکومت طہران کو اس کا مرکز ٹھہرا لیں تو اس طرح شاید اس زمین کے خطے کی تقدیر بدل جائے اور مشرقی اقوام اہل یورپ کے چنگل سے نکل آئیں اور آزاد اور ترقی یافتہ بن جائیں ۔