انسان
قدرت کا عجیب یہ ستم ہے
انسان کو راز جُو بنایا راز اس کی نگاہ سے چھپایا
معانی: عجیب ستم: انوکھا ظلم، سختی ۔ راز جو: حقیقت تلاش کرنے والا ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال قدرت سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔ اے خدائے عزوجل! اس سے زیادہ انسان پر ظلم اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک طرف تو انسان کو کائنات کے اسرار و رموز سے واقفیت کے لیے اس میں تحقیق و جستجو کا مادہ پیدا کیا دوسری طرف کائنات کے تمام اسرار کو بھی پردہَ غیبت میں رکھا ۔
بے تاب ہے ذوق آگہی کا کھلتا نہیں بھید زندگی کا
معانی: ذوق: شوق، لطف ۔ آگہی: آگاہی، باخبری ۔
مطلب: اب جو میں ان بھیدوں کو جاننے کے لیے مضطرب ہوں اس کے باوجود یہ بھید مجھ پر نہیں کھلتے تو مجھے اپنی جستجو کی ابتدا اور انجام پر حیرانی سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔
حیرت آغاز و انتہا ہے آئینے کے گھر میں اور کیا ہے
مطلب: اس لیے کہ یہ کائنات تو ایک طرح سے شیشے کا گھر ہے جس میں وہی کچھ نظر آتا ہے جو اس کے سامنے ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات کے تمام راز انسان کی حیرانی کا سبب ہیں ۔
ہے گرمِ خرام موجِ دریا دریا سوئے بحر جادہ پیما
معانی: سوئے بحر: سمندر کی طرف ۔ جادہ پیما: راستہ ناپنے، چلنے والا ۔
مطلب: بظاہر کائنات کے مناظر اور ان کی صورت حال یہ ہے کہ دریا کی لہریں تیز رفتاری کے ساتھ محو سفر ہیں اور دریا جو ہے وہ اسی رفتار سے سمندر کی جانب گامزن ہے ۔
بادل کو ہوا اڑا رہی ہے شانوں پہ اٹھائے لا رہی ہے
معانی: شانوں : جمع شانہ، کندھے ۔
مطلب: فضاء میں موجود بادلوں کو ہوا اڑا کر بلندی پر لا رہی ہے ۔ یوں لگتا ہے جیسے انہیں اس نے اپنے شانوں پر اٹھایا ہوا ہے ۔
تارے مستِ شرابِ تقدیر زندانِ فلک میں پا بہ زنجیر
معانی: مست: نشے میں ، مدہوش ۔ زندانِ فلک: آسمان کا قید خانہ ۔ پابہ زنجیر: جس کے پاؤں میں زنجیر ڈالی گئی ہو ۔
مطلب: آسمان پر ستارے اس انداز سے روشن ہیں جو ازل سے ان کے لیے مقدر ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ آسمان ایک قید خانہ ہے جس میں ستاروں کو قید کر کے رکھ دیا گیا ہے اور ان کے پاؤں میں زنجیریں پڑی ہوئی ہیں ۔
خورشید وہ عابدِ سحر خیز لانے والا پیامِ برخیز
معانی: خورشید: سورج ۔ عابدِ سحر خیز: صبح سویرے اٹھ کر عبادت کرنے والا، مراد طلوع ہونے والا ۔ برخیز: اٹھ کھڑے ہو ۔
مطلب: سورج جو علی الصبح ایک طرح سے کسی عبادت گزار کی طرح طلوع ہوتا ہے اور تمام عالم موجودات کے لیے مصروف کار ہونے کا پیغام لاتا ہے ۔
مغرب کی پہاڑیوں میں چھپ کر پیتا ہے مئے شفق کا ساغر
معانی: شفق: آسمانی سرخی کی شراب ۔
مطلب: اس کا مقدر یہ ہے کہ شام کو مغرب کی پہاڑیوں میں چھپ کر شفق کے جام سے لطف اندوز ہوتا ہے ۔ مراد یہ کہ غروب آفتاب کے بعد مغرب سے شفق نمودار ہوتی ہے ۔
لذت گیر وجود ہر شے سرمستِ مئے نمود ہر شے
معانی: لذت گیر وجود: زندگی کا لطف، مزہ اٹھانے والی ۔ سرمست: نشے میں چور ۔ مئے نمود: ظاہر ہونے کی شراب ۔
مطلب: یوں لگتا ہے کہ ہر شے اپنے وجود سے لطف اندوز ہو رہی ہے اور مسرور سرشار ہو کر خود کو ظاہر کرنے کے عمل میں ہے ۔
کوئی نہیں غم گُسارِ انساں کیا تلخ ہے روزگارِ انساں
معانی: روزگار تلخ ہونا: وقت ناگوار ہونا ۔
مطلب: ان تمام حقائق کے پیش نظر کائنات میں صرف انسان ہی ایسی شے ہے جس کا کوئی ہمدرد و غمگسار نہیں ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شب و روز کس قدر تلخ واقع ہوئے ہیں ۔