Please wait..

رباعی ستارے کا پیغام (41)

 
مجھے ڈرا نہیں سکتی فضا کی تاریکی
مری سرشت میں ہے پاکی و درخشانی
 
تو اے مسافرِ شب خود چراغ بن اپنا
کر اپنی رات کو داغ جگر سے نورانی

مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ آسمان پر جو ستارہ چمک رہا ہے وہ انسان کو کچھ اس طرح کا پیغام دیتا ہے کہ میری فطرت میں چونکہ پاکیزگی اور تابندگی موجود ہے اس لیے اگر فضا پر تاریکی کا تسلط ہو جائے پھر بھی میں اس سے خوفزدہ نہیں ہو سکتا اس لیے کہ میں تو خود اس نوع کی تاریکی کا سینہ چیر کر فضا کو منور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں ۔ اسی حوالے سے ستارہِ شب کو سفر کرنے والے مسافر سے یوں مخاطب ہوتا ہے کہ اگر تجھے اپنے وجود کو برقرار رکھنا ہے تو میری طرح اپنی ذات میں وہ صلاحیت پیدا کر جو کسی دوسرے کے سہارے کے بغیر تیرے لیے روشن چراغ کی طرح رہنمائی کا سبب بن سکے اور اس کے لیے یہ امر بھی ضروری ہے کہ تیرے جگر کا داغ شمع کے مانند تیری تاریک رات کو روشن کردے ۔ مراد یہ ہے کہ عشق حقیقی بھی ایک روشن ستارے کے مانند ہے جو ماحول کو خواہ وہ کتنا بھی تیرہ و تا ر ہو تابناک بنا سکتا ہے ۔

رباعی (42)

 
اس کھیل میں تعین مراتب ہے ضروری
شاطر کی عنایت سے تو فرزیں میں پیادہ
 
بیچارہ پیادہ تو ہے اک مہرہَ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ

معانی: تعین: مقرر کرنا ۔ مراتب: مرتبہ کی جمع ۔ فرزیں : لفظی معنی وزیر ۔ پیادہ: شطرنج کا سب سے چھوٹا مہرہ ۔
مطلب: اس قطعہ میں متحدہ ہندوستان پر انگریز کی سامراجی سیاست کو اپنا موضوع بنایا ہے ان کے نزدیک برطانوی حکمران یہاں شاطرانہ چالوں سے کام لے رہے ہیں ۔ ان کی سیاست کی بنیاد یہ ہے کہ مقامی ہمنواؤں اور خوشامدیوں کو حسب مراتب عہدے تقسیم کر دیے بالکل اسی طرح جیسے شطرنج کے کھیل میں وزیر اور پیادے ہوتے ہیں اور شاطر ان مہروں سے اپنی مرضی کے مطابق کام لیتا ہے ۔ تا ہم یہاں انگریزی شاطروں کی عیاری کا یہ عالم ہے کہ پیادہ تو بے چارہ خیر ایک معمولی سا اہلکار ہوتا ہے یہاں تو وزیر کو بھی پتہ نہیں ہونے دیا جاتا کہ اسے کس طرح اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ سیاست اسی نوعیت کی عیاری کا نام ہے ۔

رباعی خانقاہ (43)

 
رمز و ایما اس زمانے کے لیے موزوں نہیں
اور آتا بھی نہیں مجھ کو سخن سازی کا فن
 
قم باذن اللہ کہہ سکتے تھے جو رخصت ہوئے
خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گورکن

معانی: قم باذن اللہ: خدا کے حکم سے اٹھو ۔
مطلب: علامہ فرماتے ہیں کہ یہ عہد جس میں ہم سانس لے رہے ہیں اشاروں ، کتابوں اور علامتی سطح پر بات کرنے کا عہد نہیں ۔ یہاں تو صاف اور کھری بات کرنے کی ضرورت ہے ۔ یوں بھی میں تصنع کا قائل نہیں ہوں چنانچہ کسی لگی لپٹی کے بغیر اپنے مطمع نظر کو واضح کر دیتا ہوں ۔ سو امر واقع یہ ہے کہ وہ لوگ جو قم باذن اللہ کہہ کر مردوں کو پھر سے زندہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اب ہمارے درمیان موجود نہیں رہے ۔ اب تو خانقاہوں میں ان لوگوں کی جگہ ایسے لوگ باقی رہ گئے ہیں جو یا تو مجاور ہیں یا پھر قبر کھودنے والے ۔ مراد یہ ہے کہ خانقاہیں کبھی ان درویشوں کی آماجگاہ ہوتی تھیں جن کے دل عشق الہٰی سے معمور ہوتے تھے ان میں قدرت نے یہ صلاحیت پیدا کر دی تھی کہ قم باذن اللہ کہہ کر مردوں کو زندہ کر دیتے تھے جب کہ اب تو خانقاہوں میں مفادات کے بندے باقی رہ گئے ہیں جو پیسے کے لیے سب کچھ کرنے پر آمادہ رہتے ہیں ۔

رباعی لہو (44)

 
اگر لہو ہے بدن میں تو خوف ہے نہ ہراس
اگر لہو ہے بدن میں تو دل ہے بے وسواس
 
جسے ملا یہ متاع گراں بہا اس کو
نہ سیم و زر سے محبت ہے نے غم افلاس

مطلب: انسانی جسم میں خون تندرستی اور جوش و جذبے کی علامت ہے ۔ ان اشعار میں اسی امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ اگر جسم میں خون موجود ہے تو وہ انسان کو نہ صرف یہ کہ تروتازہ رکھتا ہے بلکہ خوف و ہراس بھی اس کے قریب نہیں بھٹکتا ۔ خون کی موجودگی کے سبب دل میں کوئی وسوسہ بھی پیدا نہیں ہوتا ۔ اقبال کہتے ہیں کہ جس شخص کو خون جیسی گراں بہا شے میسر آ گئی وہ ملک و دولت کی بھی پروا نہیں کرتا بلکہ افلاس اور غربت سے بھی بے نیاز ہو جاتا ہے اور اپنی تندرستی کے علاوہ جرات و ہمت اور حوصلہ کی بنیاد پر ہر شے کے حصول پر قدرت رکھتا ہے ۔

رباعی (45)

 
بلند بال تھا لیکن نہ تھا جسور و غیور
حکیم سر محبت سے بے نصیب رہا
 
پھرا فضاؤں میں کرگس اگرچہ شاہیں وار
شکار زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا

مطلب: بلند بال: اونچا اڑنے والا ۔ جسور: جسارت والا ۔
مطلب: اقبال کے نزدیک فلسفی کی تعریف یہ ہے کہ بظاہر وہ ذہنی طور پر تو بلند ہوتا ہے لیکن اس میں جرات و ہمت نہیں ہوتی بلکہ دیکھا جائے تو غیرت کا بھی فقدان ہوتا ہے ۔ فلسفی کے کردار کا تجزیہ کرتے ہوئے علامہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ محبت کے جذبے سے نا آشنا ہوتا ہے اس لیے مذکورہ بالا صلاحیتوں سے محرومی فطری امر ہے ۔ اس کی مثال وہ شاہیں اور گدھ کے کردار کے حوالے سے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پرندے تو دونوں ہی ہیں اور فضاؤں میں اڑنے کا شرف بھی دونوں کو ہی حاصل ہے لیکن فطری سطح پر دونوں کی خصوصیات متضاد ہیں ۔ شاہیں کو زندہ پرندوں کا خود شکار کرتا ہے اس لیے کہ اس میں جرات و ہمت موجود ہے ۔ وہ غیرت مند بھی ہے کہ نہ مردہ گوشت کھاتا ہے نہ کسی کا مارا ہوا شکار ۔ اس کے برعکس گدھ اگرچہ ہر ممکن بلندی تک اڑنے کی صلاحیت تو رکھتا ہے لیکن جرات و ہمت دونوں صلاحیتوں سے محروم رہتا ہے اسی باعث وہ زندہ شکار کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا بلکہ مردہ گوشت پر ہی اکتفا کرتا ہے ۔ علامہ اقبال کے نزدیک یہی کیفیت ایک فلسفی کی ہوتی ہے جو موخر الذکر پرندے سے منسوب کی گئی ہے ۔