Please wait..

صِقلیہ
(جزیرہَ سسلی)

 
رو لے اب دل کھول کر اے دیدہَ خوں نابہ بار
وہ نظر آتا ہے تہذیبِ حجازی کا مزار

معانی: صقلیہ: سسلی، بحیرہ روم کا مشہور جزیرہ جہاں مسلمانوں نے زوردار حکومت کی ۔ دیدہَ خوننابہ بار: خالص خون برسانے، رونے والی آنکھ ۔ تہذیب حجازی: مراد اسلامی تہذیب و تمدن ۔ مزار: مسلمانوں کی وہاں حکومت ختم ہونے کے سبب سے مزار کہا ۔
مطلب: ہسپانیہ کا مشہور جزیرہ صقلیہ جسے سسلی کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے ۔ خلفائے عثمانیہ کے عہد میں بڑی اہمیت کا حامل تھا ۔ یہ وہ دور تھا جب پورا ہسپانیہ مسلمانوں کے زیر نگیں تھا ۔ اقبال جب بحری جہاز کے ذریعے یورپ سے ہندوستان واپس آ رہے تھے تو ان کا جہاز صقلیہ کے جزیرے سے بھی گزرا جسے دیکھ کر اقبال کہتے ہیں کہ وہ سامنے عرب مسلمانوں کی شان و شوکت اور تہذیب کا مزار نظر آ رہا ہے اس کے باقیات کو دیدہَ عبرت نگاہ سے دیکھ اور پھر خون کے آنسو بہا لے ۔

 
تھا یہاں ہنگامہ ان صحرا نشینوں کا کبھی
بحر بازی گاہ تھا جن کے سفینوں کا کبھی

معانی: ہنگامہ: رونق، چہل پہل ۔ صحرا نشینوں : مراد عرب مسلمان جو ریگستانوں میں رہا کرتے تھے ۔ بازی گاہ: کھیلنے کی جگہ ۔ سفینوں : جمع سفینہ، کشتیاں ۔
مطلب: کبھی یہ جزیرہ ان عرب صحرا نشینوں کے اقتدار کا مظہر ہوا کرتا تھا جن کے لیے سمندر ایک تماشے کی حیثیت رکھتا تھا ۔

 
زلزلے جن سے شہنشاہوں کے درباروں میں تھے
بجلیوں کے آشیانے جن کی تلواروں میں تھے

معانی: تلواروں میں بجلیوں کے آشیانے: مراد تلواریں آسمانی بجلی کی طرح چمکدار اور فنا کرنے والی تھیں ۔
مطلب: جن کے خوف سے بڑے بڑے شہنشاہوں کے درباروں میں لرزہ آ جاتا تھا ۔ اور جن کی تلواروں میں بجلیاں پوشیدہ تھیں ۔ جو دشمنوں کو خاک و خون میں ملا کر رکھ دیتی تھیں ۔

 
اک جہانِ تازہ کا پیغام تھا جن کا ظہور
کھا گئی عصرِ کہن کو جن کی تیغِ ناصبور

معانی: جہانِ تازہ کا پیغام: مراد اسلامی تہذیب و تمدن ۔ ظہور: ظاہر ہونا، مراد وہاں حکومت ہونا ۔ عصرِ کہن: پرانا زمانہ ۔ تیغِ ناصبور: بے چین تلوار ۔
مطلب: ان مجاہدین کا وجودفرسودہ روایات کا خاتمہ کر کے ایک نئی تہذیب کو جنم دینے کا سبب بنا کرتا تھا ۔ ان کی تلوارں نے ماضی کی فرسودہ روایات کو فنا کر کے رکھ دیا تھا ۔

 
مردہ عالم زندہ جن کی شورش قم سے ہوا
آدمی آزاد زنجیرِ توہم سے ہوا

معانی: مردہ عالم: مراد جذبوں اور ولولوں سے عاری قوم ۔ شورشِ قم: مراد ان کے جوش انگیز نعرے ۔ زنجیر توہم: وہم پرستی کی بیڑی یعنی وہم پرستی ۔
مطلب: جن کے نعروں سے اس وقت کے مردہ عہد میں جان پڑ گئی تھی اور وہاں کے باسی توہمات کی دنیا سے نکل کر آزاد فضا میں سانس لینے لگے تھے ۔

 
غلغلوں سے جس کے لذت گیر اب تک گوش ہے
کیا وہ تکبیر اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے

معانی: غلغلوں : جمع غلغلہ، شور، بلند آواز ۔ لذت گیر: مزہ لینے والا ۔ گوش: کان ۔
مطلب: وہی عرب جن کے نعرے اب تک فضا میں گونج رہے ہیں کیا ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئے ۔

 
آہ! اے سسلی! سمندر کی ہے تجھ سے آبرو
رہنما کی طرح اس پانی کے صحرا میں ہے تو

مطلب: اس شعر میں اقبال جزیرہ سسلی کو مخاطب کرتے ہوئے یوں گویا ہوئے ہیں کہ بیشک اے سسلی! سمندر کا وقار اور عظمت تیرے ہی دم سے ہے ۔ اگر اس سمندر کو پانی کا ایک صحرا تصور کر لیا جائے تو تیرا وجود اس صحرا میں بھٹکے ہوئے جہازوں اور مسافروں کے لیے ایک رہنما کی حیثیت کا حامل ہے ۔

 
زیب تیرے خال سے رخسارِ دریا کو رہے
تیری شمعوں سے تسلی بحر پیما کو رہے

معانی: زیب: آرائش ۔ خال: مراد جزیرہ ۔ رخسارِ دریا: سمندر کا گال یعنی سمندر ۔ بحر پیما: سمندروں کا سفر کرنے والا ۔
مطلب: اے سسلی! تیرا وجود تو اس ماحول میں ایک ایسے تل کے مانند ہے جو خوبصورت چہروں پر زیب و زینت کا باعث ہوتا ہے ۔ رات کے لمحات میں تیری روشنیاں جہاز رانوں کے لیے اطمینان اور رہنمائی کا سبب بنتی ہیں ۔

 
ہو سبک چشمِ مسافر پر ترا منظر مدام
موجِ رقصاں تیرے ساحل کی چٹانوں پر مدام

معانی: سبک ہونا: مراد دل کشی کا سبب ہونا ۔ مدام: ہمیشہ ۔
مطلب: اے سسلی! خدا کرے اس سمندر میں تیرا وجود ہمیشہ برقرار رہے اور اہل مسافرت کے لیے تو ہمیشہ رہنمائی کے فراءض انجام دیتا رہے اور سمندر کی بپھری ہوئی موجیں ہمیشہ تیرے ساحل کی چٹانوں پر رقص کرتی رہیں ۔

 
تو کبھی اس قوم کی تہذیب کا گہوارہ تھا
حُسنِ عالم سوز جس کا آتشِ نظارہ تھا

معانی: اس قوم: مراد عرب مسلمان ۔ حسن عالم سوز: دنیا کو جلانے والا حسن، مراد دلوں میں عشق کی آگ بھڑکانے والا حسن ۔ آتشِ نظارہ: مراد جسے دیکھ کر آنکھیں چکا چوند ہو جائیں ۔
مطلب: اے سسلی! یہ مت بھول کہ تو کبھی اس قوم کی تہذیب سے ہم آہنگ تھا جس کے طنطنے سے ساری دنیا لرزتی تھی ۔ مراد یہ ہے کہ مسلمان حکمرانوں کے زیر تسلط تیری شان و شوکت انتہائی عروج پر رہی ۔ آج وہ موجود نہیں پھر بھی تو دنیا کو اپنے وجود کا احساس دلاتا ہے ۔

 
نالہ کش شیراز کا بلبل ہوا بغداد پر
داغ رویا خون کے آنسو جہاں آباد پر

معانی: نالہ کش: مراد ماتم کرنے، رونے والا ۔ شیراز کا بلبل: مراد شیخ شعدی ۔ داغ: مراد داغ دہلوی ۔ جہاں آباد: دہلی کا پرانا نام ۔
مطلب: اے سسلی! میں جانتا ہوں کہ بغداد کی تباہی نے سعدی جیسے بلند پایہ شاعر کو خون کے آنسو بہانے پر مجبور کیا ۔ داغ مرحوم دہلی کی تباہی پر نالہ کشاں ہوئے ۔

 
آسماں نے دولتِ غرناطہ جب برباد کی
ابنِ بدروں کے دلِ ناشاد نے فریاد کی

معانی: دولتِ غرناطہ: ہسپانیہ کی ایک ریاست غرناطہ کی حکومت ۔ ابن بدروں : ایک مشہور عرب شاعر جس نے غرناطہ کی تباہی پر مرثیہ لکھا تھا ۔
مطلب: جب غرناطہ کی سلطنت کا خاتمہ ہوا اور وہاں کی تہذیب کو گھن لگ گیا تو ابن بدروں اس المیے پر نالہ و فریاد کرتا رہا ۔

 
غم نصیب اقبال کو بخشا گیا ماتم ترا
چن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم ترا

معانی: ماتم ترا: یعنی صقلیہ کا ماتم ۔ محرم: واقف حال ۔
مطلب : سارے غم اس عہد کے شعرا اور دانشوروں نے اپنے لیے مخصوص کر لیے جب کہ مجھے یعنی اقبال کو قدرت نے تیری تباہی کے دکھ سے نوازا ہے ۔ اس لیے کہ میں ہی تیری عظمت و شان سے آگاہی رکھتا ہوں ۔

 
ہے ترے آثار میں پوشیدہ کس کی داستاں
تیرے ساحل کی خموشی میں ہے اندازِ بیاں

معانی: ساحل: سمندر کا کنارہ ۔ اندازِ بیاں : بات کرنے کا ڈھنگ ۔ سراپا: پور ے طور پر ۔
مطلب: اے سسلی! مجھے زبان حال سے اتنا بتا دے کہ تیری برباد ہونے والی قدیم عمارتوں میں کن لوگوں کی داستانیں پوشیدہ ہیں ۔ ہر چند کی تیرا ساحل ساکت و خاموش ہے اس کے باوجود یوں لگتا ہے جیسے وہ مجھ سے کچھ کہنے کا خواہاں ہے ۔

 
درد اپنا مجھ سے کہہ میں بھی سراپا درد ہوں
جس کی تو منزل تھا، میں اس کارواں کی گرد ہوں

معانی: گرد: مٹی ۔
مطلب: سو میں جو خود بھی سراپا درد کی حیثیت رکھتا ہوں اس سے اپنے دکھ اور کرب کا احوال بیان کر دے ۔ یہ جان لے کہ جس قوم نے تجھے اپنی منزل قرار دے کر تیری شان و شوکت میں اضافہ کیا تھا میں بھی اسی قوم کا ایک فرد ہوں ۔

 
رنگ، تصویرِ کہن میں بھر کے دکھلا دے مجھے
قصہ ایامِ سلف کا کہہ کے تڑپا دے مجھے

معانی: تصویرِ کہن: پرانی تصویر، مراد اس دور کا نقشہ ۔ قصہ: کہانی ۔ ایام سلف: گزرے ہوئے دن ۔
مطلب: اے جزیرہ سسلی! آج پھر مجھے ایام ماضی کی داستانیں سنا دے اور یہ بتا دے کہ میرے اسلاف کی شان و شوکت کیسی تھی ۔

 
میں ترا تحفہ سوئے ہندوستاں لے جاؤں گا
خود یہاں روتا ہوں ، اوروں کو وہاں رلواؤں گا

معانی: اوروں کو: یعنی دوسرے مسلمانوں کو ۔
مطلب: بے شک ان داستانوں کو سن کر میں مضطرب ہو جاؤں گا تاہم اپنے وطن جا کر وہاں کے لوگوں کو بھی یہ داستانیں سناؤں گا اور جس طرح یہاں بہا رہا ہوں وہاں کے لوگ بھی اس انقلاب زمانہ پر خون کے آنسو روئیں گے ۔