Please wait..

(7)

 
پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کو پھر نغموں پہ اُکسانے لگا مرغِ چمن

معانی: چراغ لالہ: لالہ کی روشنی ۔ کوہ و دمن: پہاڑ او وادی ۔ نغموں پہ اکسانا: شعر کہنے کی ترغیب دینا ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال فرماتے ہیں کہ موسم بہار آ گیا ہے اور لالے کے پھول اپنے رنگ و روپ سے پہاڑوں اور ٹیلوں کو تابانی بخش رہے ہیں ۔ باغوں میں پرندے مسرت و انبساط سے اس طرح چہک رہے ہیں کہ میں خود جھوم اٹھا ہوں اور اس منظر کے اثرات مجھے نغمہ گری پر اکسانے لگے ہیں ۔

 
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن

مطلب: بہار کا موسم پورے جوبن پر ہے ۔ باغات تو الگ رہے جنگل میں بھی رنگ برنگے پھول اس طرح سے کھلے ہوئے ہیں کہ جن کو دیکھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ پریاں قطار اندر قطار باندھے کھڑی ہیں ۔

 
برگِ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی بادِ صبح
اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن

معانی: موتی: قطرہ ۔ بادِ صبح: صبح کی ہوا ۔ کرن: سورج کی شعاع ۔
مطلب: پھولوں کی پتیوں پر شبنم کے قطروں کو رقصاں دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں صبح کی ہوا نے پھولوں پر ایک موتی کی طرح سجا دیا ہے اور سورج کی کرنیں جب اس موتی پر پڑ کر اس کی آب و تاب میں اضافہ کرتی ہیں تو یہ منظر اور زیادہ خوشنما ہو جاتا ہے ۔

 
حُسنِ بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے
ہوں اگر شہروں سے بَن پیارے تو شہر اچھے کہ بَن

معانی: بے نقابی: بغیر پردے کے ۔ بَن: جنگل ۔
مطلب: خدائے عزوجل تو اس امر سے قطعی بے نیاز ہے کہ اس کے مظاہر کی کس مقام پر زیادہ پذیرائی ہوتی ہے ۔ اس کے لیے شہر اور جنگل کی کوئی قید نہیں بس اس کے نزدیک تو یہ حقیقت ہے کہ اپنے مظاہر کی نقاب کشائی کے لیے اگر شہروں کی بجائے صحرا کا انتخاب کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ شہر کے مقابلے میں صحرا کی حیثیت زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے ۔

 
اپنے مَن میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن

مطلب: اس شعر میں اقبال انسان سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اگر تو میری بات تسلیم کرنے پر تیار نہیں تو اپنے باطن میں جھانک کر ہی زندگی کی حقیقتوں کا ادراک کر لے کہ زندگی اپنی تمام تر حقیقتوں کے ساتھ انسان کے باطن میں پوشیدہ رہتی ہے اور انسان کو اس حقیقت کا مکمل ادراک ہونا چاہیے ۔

 
من کی دنیا من کی دنیا سوز و مستی، جذب و شوق
تن کی دنیا تن کی دنیا، سُود و سَودا ، مکر و فن

مطلب: اس شعر میں اقبال فلسفہَ خودی کو بالکل ایک نئے انداز میں پیش کرتے ہیں اس کے ساتھ ہی وہ جذبہَ عشق و مستی کے علاوہ انسانی فطرت کے دونوں پہلووَں نیکی اور بدی کا جائزہ بھی لیتے ہیں چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ ایک جانب تو انسان باطنی سطح پر جذب و مستی اور عشق حقیقی سے ہم آہنگ رہتا ہے جب کہ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ذاتی مفاد کے لیے وہ ہر نوع کے مکر و فن کے مراحل سے گزرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتا ۔ اقبال اس شعر میں انسانی کردار کے ان دونوں پہلووَں کو خیر و شر کے آئینے میں دیکھتے ہیں ۔

 
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے، آتا ہے دھن، جاتا ہے دھن

مطلب: اقبال کے مطابق انسان کو باطنی سطح پر قلبی سکون میسر آ جائے تو پھر اس کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ تو ایسی نعمت ہے جو ضائع نہیں ہوتی جب کہ مادی اور جسمانی سطح پر حاصل ہونے والی دولت اور قوت تو ڈھلتی پھرتی چھاؤں کے مانند ہے ۔ اس کو کسی طور پر بھی پائیداری حاصل نہیں ہوتی ۔

 
من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج
من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن

معانی: افرنگی کا راج: انگریز کی حکومت ۔ شیخ و برہمن: مولوی اور پنڈت ۔
مطلب: اقبال من کی دنیا کو ایسی ریاست سے تعبیر کرتے ہیں جہاں مغربی استعمار کا تسلط بھی کسی طور پر ممکن نہیں ہے بلکہ اس دنیا میں تو شیخ اور برہمن کے تضادات پر مبنی رویوں کی گنجائش نہیں ہے ۔ مراد یہ کہ من کی دنیا ایسی پاکیزہ اور شفاف دنیا ہے جہاں مفاد پرست، منافقت اور ریاکاری کا شائبہ تک نہیں ہے ۔ یہ جہاں مغربی استعمار کی مکاری اور فریبی سیاست سے دور ہے وہاں شیخ اور برہمن کے گمراہ کن نظریات بھی نہیں ہیں ۔

 
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن

مطلب: اپنی بات کو تمام کرتے ہوئے نظم کے اس شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ اس ضمن میں مجھے تو ایک مرد قلندر کا قول شرمسار کر گیا کہ اپنی خودی کو چھوڑ کر اگر تو کسی کے روبرو جھک گیا تو جان لے کہ تیرے پاس نہ تو روحانی سکون کی دولت باقی رہے گی نا ہی دوسرے مادی فوائد برقرار رہیں گے ۔