گلہ
معلوم کسے ہند کی تقدیر کہ اب تک بے چارہ کسی تاج کا تابندہ نگیں ہے
معانی: گلہ: شکوہ، شکایت ۔ تاج: یہاں برطانوی تاج، برطانیہ کی بادشاہت مراد ہے ۔ تابندہ نگیں چمکتا ہوا موتی ۔
مطلب : ہندوستان کی قسمت میں کیا لکھا ہے کچھ معلوم نہیں ابھی تک وہ برطانوی شہنشاہ کے تاج کا چمکیلا موتی بنا ہوا ہے ۔ ہندوستان وسائل کے اعتبار سے جملہ برطانوی مفتوحہ علاقوں سے زیادہ خوش حال تھا ۔ اس لیے اسے برطانوی تاج کا تابندہ نگیں کہا گیا ہے ۔ اس کو لوگ سونے کی چڑیا کہتے تھے ۔ اس سونے کی چڑیا کا سونا انگریز اتار کر لے گئے اور باقی پروں والی بے چاری چڑیا رہ گئی ہے ۔ یعنی انگریز نے ہندوستان کو خوب لوٹا ہے اور اس لوٹ سے اپنے ملک تعمیر کیے ہیں ۔
دہقاں ہے کسی قبر کا اُگلا ہوا مُردہ بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیرِ زمیں ہے
معانی دہقاں کسان ۔ بوسیدہ: پرانا ، پھٹا ہوا ۔ زیر ز میں : زمین کے نیچے ۔
مطلب: انگریزوں کی لوٹ مار کے نتیجے میں اہل ہند کا جو حال ہوا ان میں سے ایک طبقہ یعنی کسانوں کا ذکر کرتے ہوئے علامہ نے کہا ہے کہ کھیتوں میں محنت تو وہ کرتے ہیں اور ان کی فصلوں سے فائدہ انگریز حکمران اٹھاتے ہیں جس کے نتیجے میں فاقہ کشی کی بنا پر یہاں کا کسان یوں دکھائی دیتا ہے جیسے کسی قبر نے کوئی ایسا مردہ باہر پھینک دیا ہو جس کا پرانا اور پھٹا ہوا کفن ابھی تک زمین کے اندر موجود ہو تا کہ وہ اسے پھر اپنی لپیٹ میں لے لے ۔
جاں بھی گروِ غیر، بدن بھی گروِ غیر افسوس کہ باقی نہ مکاں ہے نہ مکیں ہے
معانی: گرو غیر: غیروں کے پاس رہن رکھی ہوئی ۔ مکیں : مکان میں رہنے والا ۔
مطلب: انگریزوں کی لوٹ مار کے نتیجے میں اس وقت کے برصغیر کا ہر باشندہ سیاسی اور اقتصادی طور پر ان کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا ۔ یوں سمجھئے کہ یہاں کے باشندوں کے جسم اور ان کی جانیں انگریزوں کے پاس رہن رکھی ہوئی تھیں ۔ اس اعتبار سے بظاہر مکان اور مکان میں رہنے والے تو موجود تھے لیکن بباطن نہ مکان ان کے تھے اور نہ ان مکانوں میں رہنے والے اپنے آپ کے مالک تھے ۔ سب کچھ غلامی کے داوَ پر لگ چکا تھا ۔
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ہے
معا نی: یورپ : مراد انگریز ۔ گلہ: شکایت ۔ رضامند: راضی ۔
مطلب: علامہ نے برصغیر کے لوگوں کی غلامی اور انگریزوں کی آقائی کے سلسلے میں جو باتیں مذکورہ بالا شعروں میں کی ہیں ان کے متعلق ایک نیا ہی خیال دیا ہے اور وہ یہ کہ تم اگر اہل یورپ کی غلامی پر راضی نہ ہوتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ اپنے آقاؤں کو اس ملک سے باہر نہ پھینک دیتے اس لیے مجھے تو اے برصغیر کے غلامی پر راضی ہو جانے والے باشندو تم سے شکایت ہے کہ تم نے اپنے آقاؤں کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں مجھے یورپ والوں سے کوئی شکایت نہیں ۔ شکایت ہے تو تم سے ہے کہ تم آزادی کے لیے جدوجہد نہیں کر رہے ۔