پیر و مرید
مرید ہندی
چشمِ بینا سے ہے جاری جُوئے خوں علمِ حاضر سے ہے دیں زار و زبوں
معانی: چشمِ بینا: دیکھنے والی آنکھ ۔ جوئے خوں : خون کی ندی ۔ علم حاضر: نیا علم ۔
مطلب: یہ طویل نظم عملاً دو کرداروں پر محیط ہونے کے ساتھ فکری سطح پر بڑی اہم اور قدرے طویل نظم ہے ۔ اس میں اقبال نے مولانا روم اور مرید ہندی یعنی خود اقبال کے مابین مکالمہ پیش کیا ہے ۔ مکالمے کا آغاز مرید ہندی کے استفسارات سے ہوتا ہے اقبال نے ساتھ ہی مثنوی مولانا روم کے بعض اشعار کی تشریح بھی کر دی ہے ۔ حقیقت حال کو پرکھنے والی آنکھ سے آنسووَں کی جگہ خون جاری ہے ۔ اس لیے کہ عہد حاضر کی تہذیب اور علوم نے مذہب کی اہمیت گھٹا دی اور یوں دین کو خراب و خستی کر کے رکھ دیا ہے ۔ آپ کے نزدیک اس کا کیا علاج ہے ۔
پیر رومی
علم را بر تن زنی مارے بود علم را بر دل زنی یارے بود
معانی: اگر تو اس علم کو جسم پر مارے تو سانپ بن جائے گا ۔ اگر تو اس علم کو دل پر مارے تو دوست بن جائے گا ۔
مطلب: مراد یہ ہے کہ علم اگر ظاہری آرائش و آسائش کے لیے استعمال ہو گا تو وہ عملاً غیر مفید اور نقصان دہ ثابت ہو گا ۔ اس کے برعکس اگر علم کا مقصد باطن کی آراستگی ہو توخواہ وہ مغربی علم ہی کیوں نہ ہو عالم انسانیت کے لیے باعث رحمت ہو گا ۔ مغربی علوم کو دراصل منفی انداز میں استعمال کیا جا ر ہا ہے اس لیے وہ دینی نقطہ نگاہ سے خرابی کا سبب بن گئے ہیں ۔
مرید ہندی
اے امامِ عاشقانِ درد مند یاد ہے مجھ کو ترا حرفِ بلند
معانی: امام: رہبر ۔ عاشقانِ دردمند: درد دل رکھنے والا عاشق ۔ حرفِ بلند: بلند کلام ۔
مطلب: اے درد مند عشاق کے امام! مجھے آپ کا یہ قول بلند مرتبہ پوری طرح ازبر ہے ۔
خشک مغز و خشک تار و خشک پوست از کجا می آید ایں آواز دوست
مطلب: کہ ساز کا مغز خشک ہوتا ہے ۔ اس کے تار اور ڈھانچہ یہ سب خشک ہوتے ہیں پھراس میں سے وہ نغمے کیسے برآمد ہوتے ہیں جو محبوب حقیقی کی یاد تازہ کرتے ہیں
دورِ حاضر مستِ چنگ و بے سرور بے ثبات و بے یقین و بے حضور
معانی: چنگ: ساز ۔ بے سرور: بغیر خوشی کے ۔
مطلب: موجودہ عہد محض آواز پرست ہے اسی لیے اسے کیف و سرور کا ادراک نہیں ۔ نہ یہ راہ حقیقی کا پرستار ہے ۔ نا ہی اس میں یقین کا کرشمہ نظر آتا ہے اور نا ہی اسے حضوری کا ذوق نصیب ہے ۔
کیا خبر اس کو کہ ہے یہ راز کیا دوست کیا ہے دوست کی آواز کیا
مطلب: اس صورت میں اسے اس راز سے کیا واسطہ کہ دوست کون ہے اور اس کی آواز سے کیا مراد ہے ۔
آہ یورپ! بافروغ و تابناک نغمہ اس کو کھینچتا ہے سوئے خاک
معانی: بافروغ: ترقی پایا ہوا ۔ تابناک: روشن خیالی ۔ نغمہ: گانا ۔ خاک: مٹی ۔
مطلب: ہر چند کہ اہل یورپ نے علم و فن میں کافی ترقی کر لی پھر بھی اس نے کوئی بلند مرتبہ حاصل نہیں کیا ۔ اس کا ذوق سطحی ہے نغمہ و ساز سے بھی اس نے استفادہ نہیں کیا اس کی کیا وجہ ہے
پیر رومی
برسماعِ راست ہر کس چیز نیست طعمہَ ہر مرغکے انجیر نیست
مطلب: جس طرح انجیر کا پھل ہر پرندے کی مرغوب غذا نہیں اسی طرح موسیقی کا معاملہ ہے ۔ اس سے لطف وہی شخص حاصل کر سکتا ہے جو حقیقی ذوق کا مالک ہو ۔ بالفاظ دگر یہ یورپ کی بدنصیبی ہے کہ موسیقی سے حقیقی معنوں میں فائدہ اٹھا نہ سکا ۔
مرید ہندی
پڑھ لیے میں نے علومِ شرق و غرب روح میں باقی ہے اب تک درد و کرب
مطلب: میں نے ہر چند کہ مشرق و مغرب کے بیشتر علوم کا مطالعہ کر لیا اس کے باوجود محسوس کرتا ہوں کہ روح ابھی تک تشنہ ہے ۔ ان سے میرے دکھ اور کرب کا مداوا نہیں ہو سکا آخر اس کا کیا سبب ہے
پیر رومی
دستِ ہر نا اہل بیمارت کند سُوئے مادر آ کہ تیمارت کند
معانی: طبیب ہو یا تیمار دار، ہر نا اہل شخص کا ہاتھ تجھے مزید بیمار کر دے گا ۔ مامتا یہی ہے کہ جو حقیقی تیمار داری کی اہل ہے اسی کی جانب متوجہ ہو ۔ مراد یہ ہے کہ محض علم و فنون سے روح کی تشنگی دور نہیں ہو سکتی نا ہی انسانی دکھ اور کرب کا مداوا ہو سکتا ہے ۔ روح کی کسک تو اہل حق رفع کر سکتے ہیں جو اس کے اہل ہوں اور جس میں ماں کی سی شفقت بھی ہو ۔
مرید ہندی
ہے نگہ تیری مرے دل کی کشاد کھول مجھ پر نکتہَ حکمِ جہاد
مطلب: پیر و مرشد! آپ کی نگاہ سے میرا دل کشادہ ہو جاتا ہے مجھ پر جہاد کا معنی کھول دے کہ جہاد کی حقیقت کیا ہے یہ نکتہ میرے ذہن میں ابھی لا ینحل ہے ۔
پیر رومی
نقشِ حق را ہم بہ امر حق شکن بر زجاجِ دوست سنگِ دوست زن
مطلب: جہاد کی تعریف یہ ہے کہ خدا کے بنائے ہوئے نقش کو اسی کے حکم کے مطابق مٹا دیا جائے ۔ بالفاظ دگر دوست کے آئینے پر اسی کے دیے ہوئے پتھر سے وار کیا جائے ۔ مراد یہ ہے کہ باطل کی قوتوں کے خلاف بحکم خدا وند تعالیٰ حق پرستوں کا نبرد آزما ہونا ہی جہاد ہے حالانکہ دونوں قوتیں رب العزت نے ہی پیدا کی ہیں لیکن اس کے فرمان کی تعمیل کے مطابق باطل کی قوتوں کے خلاف جہاد فرض اولین ہے ۔
مرید ہندی
ہے نگاہِ خاوراں مسحورِ غرب حورِ جنت سے ہے خوشتر حورِ غرب
مطلب: اہل مشرق کی نگاہیں یورپی تہذیب اور اس کے ظاہری حسن و جمال سے خیرہ ہیں ۔ انہیں تو یورپ کی حسین و جمیل عورتیں حورانِ جنت سے بھی زیادہ حسین لگتی ہیں ۔
پیر رومی
ظاہرِ نقرہ گر اسپید است و نو دست و جامہ ہم سیہ گردد ازو
مطلب: چاندی بظاہر چمکیلی، سفید اور نئی لگتی ہے جب کہ اس کے استعمال سے ہاتھ اور کپڑے سیاہ بھی تو ہو جاتے ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ چیزوں کی ظاہری حالت سے ان کی باطنی حقیقت اور افادیت کا اندازہ لگانا صریحاً غلط ہے ۔ یورپی خواتیں کتنی ہی پرکشش اور حسین و جمیل ہوں پھر بھی اگر وہ قلب و روح کے لیے چاندی کی طرح سیاہی کا باعث بنیں تو ان پر فریفتگی کار عبث ہے ۔
مرید ہندی
آہ مکتب کا جوانِ گرم خوں ساحرِ افرنگ کا صیدِ زبوں
مطلب: افسوس کہ ہماری درس گاہوں کے گرم خون نوجوان مغربی خواتین پر فریفتہ ہونے کے ساتھ انہی کی تہذیب اور طور طریقوں کو اپنا لیتے ہیں ۔ اس کے بارے میں کچھ ارشاد فرمائیے ۔
پیر رومی
مرغ پر نارستہ چوں پرّاں شود طعمہَ ہر گربہَ درّاں شود
مطلب: جو پرندہ ابھی ننھا سا ہو اور پروں سے بھی محروم ہو اس کے باوجود اڑنے کی کوشش کرے گا تو قریب ہی تاک میں بیٹھی ہوئی بلی اسے دبوچ لے گی اور وہ اس کا لقمہ تر بن کر رہ جائے گا ۔
مرید ہندی
تا کجا آویزشِ دین و وطن جوہرِ جاں پر مقدم ہے بدن
مطلب: یہ تو فرمائیے کہ مذہب اور وطن کے حوالے سے معرکہ آرائی کب تک جاری رہے گی ۔ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ مذہب کی حیثیت جان کی ہے اور وطن کو جسم تصور کر لیا جائے تو اس صورت میں مذہب ہی اصل شے ہے مگر ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو جان پر جسم کو یعنی وطن کو مذہب پر فوقیت دیتا ہے ۔ یہ مسئلہ کافی حد تک حل طلب ہے ۔
پیر رومی
قلبِ پہلو می زند با زر بشب انتظارِ روز می دارد ذہب
مطلب: نقلی سونا اصلی سونے سے رات کو برابری کرتا ہے اور اصل سونا دن نکلنے کا انتظار کرتا ہے ۔ یعنی شب کی تاریکی میں دیکھا جائے تو کھرے کھوٹے کی تمیز نہیں کی جا سکتی ۔ سونے کی حقیقت تو شب کی تاریکی میں نہیں دن کی روشنی میں ہی معلوم ہوتی ہے ۔ ورنہ شب کو تو کھوٹا سکہ بھی کھرا سکہ لگتا ہے اور دونوں میں امتیاز مشکل ہو جاتا ہے ۔ مراد یہ کہ عہد حاضر کی جو تعلیم ہے اس کی چمک نے نگاہوں کو خیرہ کر دیا ہے ۔ ذہنوں پر پردے پڑ گئے ہیں ۔ جب مطلع صاف ہو گا تو پتہ چل جائے گا کہ حقیقت کیا ہے ۔ مذہب کھرا سکہ ہے یا وطنیت ۔
مرید ہندی
سرِ آدم سے مجھے آگاہ کر خاک کے ذرّے کو مہر و ماہ کر
مطلب: یا حضرت! میں تو ایک ذرہ خاک ہوں ۔ براہ کرم مجھے اس امر سے آگاہ کیجیے کہ انسان کی حقیقت کیا ہےاس حقیقت سے آگاہی مجھے مہر و ماہ کے ہم پلہ لانے کی مترادف ہو گی ۔
پیر رومی
ظاہرش را پشّہَ آرد بچرخ باطنش آمد محیطِ ہفت چرخ
مطلب: اس (انسان) کا ظاہر تو ایک مچھر سے چکر کھا جاتا ہے لیکن باطن سات آسمانوں کو گھما دیتا ہے ۔ بظاہر انسان اس قدر کمزور اور بے حیثیت ہے کہ ایک معمولی سا مچھر بھی اس کی بے بسی کا سبب بن سکتا ہے اور دم بھر کے لیے چین نہیں لینے دے گا خدائے ذوالجلال نے باطنی سطح پر اس میں وہ صلاحتیں پیدا کر دی ہیں کہ آسمانوں کی بلندیوں کو بھی چھو سکتا ہے ۔ مولانا روم کے اس شعر کے پس منظر میں نمرود جیسے صاحب اقتدار بادشاہ اور پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد کی معراج کے واقعات واضح طور پر نظر آتے ہیں کہ نمرود جیسے ظالم لیکن جلیل القدر بادشاہ کی موت کا سبب ایک معلولی سا مچھر تھا جب کہ حضور نے بحیثیت انسان اور پیغمبر ہفت افلاک طے کر کے معراج کا رتبہ بلند حاصل کیا ۔
مرید ہندی
خاک تیرے نور سے روشن بصر غایتِ آدم خبر ہے یا نظر
معانی: خاک: زمین ۔ روشن بصر: آنکھ کا روشن ہونا ۔ غایت آدم: آدم کا مقصد ۔
مطلب: آپ تو ایسے صاحب حکمت و کرامت ہیں کہ اپنے نور سے مٹی کے پتلے کی آنکھیں روشن کر دی تھیں ۔ مجھے اتنا بتا دیجیے کہ انسان کا مقصد اس جہان فانی میں حقیقتوں کا بالواسطہ علم حاصل کرنا ہے یا ان کو بلاواسطہ دیکھنا ہے ۔
پیر رومی
آدمی دید است، باقی پوست است دید آں باشد کہ دیدِ دوست است
مطلب: آدمی کا اصل تو نظر ہے باقی گوشت پوست ہے نظر تو وہ ہے کہ اس سے دوست (خدا) کا دیدار ہو ۔ یعنی انسانیت کی حقیقت محض دیدار دوست ہے باقی سب کچھ محض تکلف ہے اور دیدار سے یہ مراد ہے کہ محبوب حقیقی کے جمال سے آنکھوں میں روشنی آ جائے ۔ مراد یہ ہے کہ عشق حقیقی سے ہی انسانی روح میں بالیدگی کا احساس پیدا ہوتا ہے ۔
مرید ہندی
زندہ ہے مشرق تری گفتار سے امتیں مرتی ہیں کس آزار سے
معانی: گفتار: کلام ۔ آزار: بیماری ۔
مطلب: مشرق کے لوگ آپ کے کلام اور اس میں موجود حکمت و دانش سے زندگی کی حرارت اور تجربہ حاصل کرتے ہیں ۔ یہ تو فرمائیے وہ کون سے عوارض ہیں جن سے قو میں تباہ و برباد ہو کر موت کے گھاٹ اتر جاتی ہیں اور ان کا وجود باقی نہیں رہتا
پیر رومی
ہر ہلاکِ امتِ پیشیں کہ بود زانکہ بر جندل گماں بردند عود
مطلب: پہلی ہر امت کی ہلاکت کا سبب یہ ہے کہ اس نے پتھر کو خوشبو دار لکڑی سمجھا اور دھوکا کھایا ۔ یعنی بے معنی شے اور غلط کاریوں کو حقیقت کے جوہر سے تعبیر کرنے والی قو میں کبھی زندہ نہیں رہ سکتیں نا ہی ترقی کے عمل سے گزر سکتی ہیں ۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ہر پتھر کوعود تصور کر لیا جائے تو یہ بصیرت کا نقص ہے ۔ بے شک عود اور پتھر ملتی جلتی شباہت کے مظہر ہوتے ہیں لیکن عود کی خصوصیت یہ ہے کہ اسے جس مقام پر رکھ کر جلایا جائے تو وہ مقام معطر ہو جاتا ہے ۔ جب کہ یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جوہر ناشناسی بصیرت کی موت ہے اور جو قوم دانش و بصیرت کے جوہر سے محروم ہو جائے اس کی موت واقع ہو جاتی ہے ۔
مرید ہندی
اب مسلماں میں نہیں وہ رنگ و بو سرد کیونکر ہو گیا اس کا لہو
مطلب: یہ کیسے ہوا کہ مسلمانوں میں نہ وہ جذبہ باقی رہا نہ پہلی سی شان و شوکت اس کی قوت عمل اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ آخر کیوں سرد پڑ گیا ۔
پیر رومی
تا دلِ صاحبدلے نامد بہ درد ہیچ قومے را خدا رُسوا نہ کرد
معانی: جب تک کسی صاحب دل بزرگ کو تکلیف نہیں دی جاتی ، اللہ کسی قوم کو رسوا نہیں کرتا ۔ یعنی اس کا سبب یہ ہے کہ اب مسلمان سچائیوں اور حق پرستی سے محروم ہو گئے اور ان اہل حق کے لیے دل شکنی اور دکھ کا سبب بن گئے ہیں جنھوں نے ان کی رہنمائی کی اور اس عمل میں بے شمار مصائب سے دوچار ہوئے جب کہ مسلمان ان کی پیروی سے گریز کر رہے ہیں ۔
مرید ہندی
گرچہ بے رونق ہے بازارِ وجود کون سے سودے میں ہے مردوں کا سُود
مطلب: ہر چند کہ یہ دنیا عارضی قیام گاہ ہے اور اس کی رونق مفقود ہوتی جا رہی ہے لیکن یہ تو فرمائیے کہ ان حالات میں مردان حق کا کیا کردار ہونا چاہیے جس سے وہ موجودہ صورت حال میں بھی کامیاب زندگی گزار سکیں
پیر رومی
زیرکی بفروش و حیرانی بخر زیرکی ظن است و حیرانی نظر
مطلب: مردان حق پر لازم ہے کہ عقل و دانش جو عملی سطح پر وہم و گمان سے ہم آہنگ ہیں ۔ انہیں لوگوں میں تقسیم کریں اور حیرانی ان کے عوض حاصل کریں جو عشق اور معرفت کی مظہر ہے ۔ یہی وہ عمل ہے جس سے مردان حق اس جہان عارضی میں کامرانی و بامراد ہو سکتے ہیں ۔
مرید ہندی
ہم نفس میرے سلاطیں کے ندیم میں فقیرِ بے کلاہ و بے گلیم
معانی: ہم نفس: دوست، ہمدرد ۔ سلاطیں : بادشاہ ۔ ندیم: دوست ۔ کلاہ: ٹوپی ۔ گلیم: گدڑی ۔
مطلب: میرے تمام رفقاء اور دوست تو بادشاہوں اور امراء کے مصاحب بن گئے ہیں ایک میں ہی ایسا فرد ہوں جس کا سر کلاہ اور جس لباس سے بھی محروم ہے یعنی میرے رفقا تو مصلحتوں اور موقعہ پرستی کے طفیل بلند مناصب پر پہنچ گئے لیکن چونکہ مجھ میں یہ صلاحیتیں موجود نہ تھیں اس لیے ہر نوع کی سہولت اور آسائش سے محروم رہا ۔
پیر رومی
بندہَ یک مرد روشن دل شوی بہ کہ بر فرقِ سرِ شاہاں روی
مطلب: اے عزیز! شاہوں اور امراء کے دربار میں اعزاز حاصل کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ تو کسی مرد حق اور روشن ضمیر سے اکتساب فیض کرے ۔ کہ شاہوں اور امراء کے دربار تو خوشامدی اور منافقوں کی آماجگاہ ہوتے ہیں جب کہ مردان حق اور روشن ضمیر لوگوں کی صحبت اختیار کرنے والے لوگ ہر نوع کی شان و شوکت اور نمائش و مصلحت پرستی سے بے نیاز ہو جاتے ہیں ۔
مرید ہندی
اے شریکِ مستیِ خاصانِ بدر میں نہیں سمجھا حدیث جبر و قدر
مطلب: شریک مستی: شامل حال ۔ بدر: جنگ بدر، اسلام کی پہلی جنگ ۔
مطلب: پیر و مرشد! آپ تو اس مرتبے کے مالک ہیں جو معرکہ بدر کے ان مجاہدین کو حاصل ہوا جو حضور ختمی مرتبت ﷺ کے خاص یار و مددگار تھے ۔ آپ نے معرفت الہٰی کا اکتساب انہی کے اسوہ حسنہ سے کیا لیکن مجھ میں اتنی صلاحیت نہیں کہ مسئلہ جبر و قدر کی حقیقت معلوم کر سکوں ۔ براہ کرم اس سلسلے میں میری رہنمائی کیجیے ۔
پیر رومی
بالِ بازاں را سُوے سُلطاں برد بالِ زاغاں را بگورستاں برد
مطلب: بازوں کو بادشاہوں کی طرف بازو لے جاتا ہے اور بازو ہی کووں کو قبرستان میں لے جاتا ہے ۔ یعنی شاہیں اور کوے میں قدر مشترک یہ ہے کہ رب ذوالجلال نے دونوں کو پرواز کے لیے پر عطا کیے ہیں لیکن شاہیں کو بال و پر شاہوں اور امراء کے دربار تک لے جاتے ہیں جب کہ اسی نوع کے بال و پر کوے کو قبرستان کا راستہ دکھاتے ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ انسان اپنی بلند ہمت، قوت بازو اور اعلیٰ ذوق کے سبب انتہائی اعزاز اور مرتبے سے سرفراز ہوتا ہے جب کہ اس کے مقابل دوسرا اپنی پست ہمتی اور کور ذوقی کے باعث ذلت و رسوئی کے ساتھ پستی میں گر جاتا ہے ۔ دونوں اپنے کردار و عمل کے حوالے سے اچھے یا برے مقام کے حقدار ہوتے ہیں ۔
مرید ہندی
کاروباریِ خسروی یا راہبی کیا ہے آخر غایتِ دینِ نبی
مطلب: یہ فرمائیے کہ پیغمبر اسلام حضور سرورکائنات ﷺ نے جو دین راءج کیا اس کی بنیادی طور پر غرض و غایت کیا ہے کیا اس سے بادشاہی اور حکمرانی مراد ہے یا ترک دنیا اور رہبانیت اس کا مقصود ہے
پیر رومی
مصلحت در دینِ ما جنگ و شکوہ مصلحت در دینِ عیسیٰ غار و کوہ
مطلب: ہمارے دین میں جنگ (جہاد) شوکت کا ذریعہ ہے ۔ اور عیسیٰ کے دین کا مسکن غار اور پہاڑ ہے یعنی ترک دنیا و راہبی ۔ یعنی دین کا ملک و معاشرے پر غلبہ ہونے سے ہی امت اور اسلام کی نجات ہے ورنہ بے دین لوگ جب حاکم ہوں گے تو چنگیزی ہی ہو گی ۔ ترک دنیا اپنی معاشرتی ذمہ داریوں سے فرار کے مترادف ہے ۔
مرید ہندی
کس طرح قابو میں آئے آب و گِل کس طرح بیدار ہو سینے میں دل
مطلب: ازراہ عنایت یہ بھی بتا دیجیے کہ پانی او ر مٹی جیسے عناصر پر غلبہ حاصل کر کے مادی اور جسمانی خواہشات پر کس طرح قابو پایا جا سکتا ہے کہ اس کے بغیر نہ تو دل بیدار ہو سکتا ہے نا ہی زندگی کے قالب میں نئی روح پھونکی جا سکتی ہے
پیر رومی
بندہ باش و بر زمیں رُو چون شمند چوں جنازہ نے کہ بر گردن برند
مطلب: رب العزت کے احکام کی پیروی اسی طرح کر جیسے زمین پر گھوڑا اپنے سوار کے اشارے پر چلتا ہے ۔ جدوجہد اور عمل سے گریز نہ کر ۔ اور دوسروں کا اس طرح دست نگر نہ بن جس طرح کسی فرد کا جنازہ دوسروں کی گردن کا بوجھ بن جاتا ہے ۔ یہی عوامل ہیں جن کے ذریعے زندگی کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہو سکتی ہے ۔
مرید ہندی
سِرّ دیں ادراک میں آتا نہیں کس طرح آئے قیامت کا یقیں
معانی: میری سمجھ میں تو آج تک دین کا بھید ہی نہیں آیا پھر قیامت پر کس طرح سے یقین آ سکتا ہے
پیر رومی
پس قیامت شو قیامت را بہ بیں دیدنِ ہر چیز را شرط است ایں
مطلب: تو خود عملاً بن جا ۔ اپنی ذات میں ایسا انقلاب پیدا کر لے جو قیامت کے ضمن میں متوقع ہے ۔ اس کے بعد تجھے خود بخود قیامت کا یقین آ جائے گا اور یہ معرفت بھی حاصل ہو جائے گی کہ دین کیا ہے اور پھر قیامت کیا ہے ۔
مرید ہندی
آسماں میں راہ کرتی ہے خودی صیدِ مہر و ماہ کرتی ہے خودی
مطلب: جب خودی اپنے انتہائی عروج تک جا پہنچتی ہے تو اس کی رسائی آسمانوں تک ہو جاتی ہے جہاں پہنچ کر وہ چاند اور سورج کو بھی اپنے زیر نگیں کر لیتی ہے ۔ مراد یہ کہ جذبہ خودی کا اوج کمال تک پہنچنا افلاک سے لے کر سورج اور چاند پر گرفت حاصل کرنے کے مترادف ہے!
بے حضور و بافروغ و بے فراغ اپنے نخچیروں کے ہاتھوں داغ داغ
معانی: صید: شکار ۔ بے حضور: بے توجہ ۔ بافروغ: ترقی یافتہ ۔ نخچیر: شکار ۔
مطلب: لیکن جب اسے بارگاہ خداوندی میں حضوری کا شرف حاصل نہیں ہوتا اور فراغت میسر نہیں آتی تو اپنے افکاروں کے ہاتھوں ہی پریشان حالی میں گرفتار ہو جاتی ہے ۔
پیر رومی
آں کہ ارزد صید را عشق است و بس لیکن او کے گنجد اندر دام کس
مطلب: اگر شکار کے لائق کائنات میں کوئی شے ہے تو وہ عشق حقیقی ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ عشق حقیقی تو ہر حال میں کسی کی بھی پہنچ سے باہر ہے وہ کس طرح کسی کے جال میں سما سکتا ہے ۔
مرید ہندی
تجھ پہ روشن ہے ضمیرِ کائنات کس طرح محکم ہو ملت کی حیات
معانی: ضمیر: اندرونی شور ۔ محکم: پختہ ۔آسمانوں پر
مطلب: پیر و مرشد آپ پر تو پوری طرح واضح ہے کہ کائنات کی حقیقت کیا ہے ۔ اتنا بتا دیجیے کہ قومی زندگی کے استحکام کے لیے کیا لاءحہ عمل اختیار کیا جائے
پیر رومی
دانہ باشی مرغکانت بر چنند غنچہ باشی کودکانت بر کنند
مطلب: اگر تخریب کاروں کی گرفت سے بچنا چاہے تو اپنی ذات کو محفوظ رکھ ۔ اس صورت میں جو بھی تیرا تعاقب کرے گا خود ہی تیرے جال میں پھنس کر رہ جائے گا ۔اگر تیری ہیءت دانے کے مانند ہو تو ظاہر ہے کہ اسے پرندے کب چھوڑیں گے ۔ کلی کی شکل اختیار کر لے تو چھوٹے چھوٹے بچے تجھے نوچ پھینکیں گے ۔
دانہ پنہاں کُن سراپا دام شو غنچہ پنہاں کُن گیاہِ بام شو
مطلب: اس صورت میں لازم ہے کہ اپنا بسیرا کسی ایسی بلندی پر استوار کر جو دوسروں کی دسترس سے باہر ہو ۔ قوموں کا استحکام اسی صورت میں ممکن ہے کہ اپنے دفاع کی تمام ممکن تدبیریں اختیار کر لی جائیں ۔
مرید ہندی
تو یہ کہتا ہے کہ دل کی کر تلاش طالبِ دل باش و در پیکار باش
مطلب: پیر و مرشد یہ خود آپ ہی کا ارشاد ہے کہ دل کو تلاش کر! اور آپ ہی کا فرمان ہے کہ دل کا طلبگار رہ! اور اس ضمن میں جو رکاوٹیں درپیش ہوں ان کی مزاحمت کے لیے مستعد رہ! ۔
جو مرا دل مرے سینے میں ہے میرا جوہر میرے آئینے میں ہے
مطلب: جب کہ میرا دل تو خود میرے سینے میں موجود ہے اور مجھ میں جو جوہر موجود ہے وہ اسی آئینے میں فروزاں نظر آتا ہے
پیر رومی
تو ہمی گوئی مرا دل نیز ہست دل فرازِ عرش باشد نے بہ پست
مطلب: مانا کہ تیرے سینے میں بھی دل موجود ہے لیکن اس حقیقت کو جان لے کہ دل محض اس گوشت کے ٹکڑے کو نہیں کہتے جو ہر انسان کے پہلو میں دھڑکتا رہتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دل کا حقیقی مقام عرش معلی ہے نہ کہ وہ پستی میں رہتا ہے بالفاظ دیگر دل کا تعلق تو بالواسطہ طور پر رب العزت سے ہے نہ کہ اس عالم فانی سے ۔
تو دلِ خود را دلے پنداشتی جستجوے اہلِ دل بگذاشتی
مطلب: جہاں تک میرے قول کا تعلق ہے تو نے اسے غلط سمجھا ہے اور اسی پس منظر میں اپنے دل کو روایتی دل تصور رکر لیا ہے ۔ میرا نقطہ نظر یہ تھا کہ اہل دل کو تلاش کر اور المیہ یہ ہے کہ وہ تلاش تو نے ترک کر دی ہے ۔
مرید ہندی
آسمانوں پر مرا فکرِ بلند میں زمیں پر خوار و زار و درد مند
مطلب: مری فکر اتنی بلند ہے کہ اس کا رابطہ آسمانوں کے ساتھ ہے اس کے باوجود مقام عبرت ہے کہ میں خود زمین پر خوار و خستہ اور غمزدگی کے عالم میں بیٹھا ہوں ۔
کارِ دنیا میں رہا جاتا ہوں میں ٹھوکریں اس راہ میں کھاتا ہوں میں
مطلب: سچ تو یہ ہے کہ میں دنیاوی کاروبار کے لیے اہل ثابت نہیں ہو سکا اسی لیے اس راہ میں ٹھوکریں کھا رہا ہوں ۔
کیوں مرے بس کا نہیں کارِ زمیں ابلہَ دنیا ہے کیوں دانائے دیں
مطلب: اتنا بتا دیجیے کہ دنیا کا کاروبار کیوں میرے بس کا نہیں ۔ اور میں کیوں اس کو انجام دینے میں ناکام رہا ہوں ۔ یہ فرمائیے کہ جو شخص دین کی حقیقتوں سے کلی طور پر آگاہ ہے وہ دنیوی کام سے کیوں ناواقف ہے
پیر رومی
آں کہ بر افلاک رفتارش بود بر زمیں رفتن چہ دشوارش بود
مطلب: پہلے یہ امر ذہن نشین کر لے کہ جو شخص آسمانوں پر بے تکلف پرواز کرتا رہتا ہے اس کے لیے زمین پر چلنا پھرنا کیسے مشکل ہو سکتا ہے ۔
مرید ہندی
علم و حکمت کا ملے کیونکر سراغ کس طرح ہاتھ آئے سوز و درد و داغ
مطلب: یہ فرمائیے کہ مجھے علم و حکمت کا سراغ کس طرح سے مل سکتا ہے ۔ سوز و گداز ، درد اور داغ کس طرح دستیاب ہو سکتے ہیں کہ عشق کے اوصاف یہی عوامل تو سمجھے جاتے ہیں
پیر رومی
علم و حکمت زاید از نانِ حلال عشق و رقت آید از نانِ حلال
مطلب : علم و حکمت ، سوز و گداز اور عشق عملاً حلال کی روزی کمانے کے عمل سے حاصل ہو سکتے ہیں ۔ جان لے کسب حلال کرنے والا شخص ان نعمتوں کا سزاوار ہے ۔
مرید ہندی
ہے زمانے کا تقاضا انجمن اور بے خلوت نہیں سوزِ سخن
مطلب: ہر عہد کا تقاضا یہی رہا ہے کہ لوگوں سے میل جول رکھا جائے تا کہ انسان تنہائی اور گوشہ گیری پر مائل نہ ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ تنہائی اور گوشہ گیری کے بغیر تخلیقی عمل میں سوز و گداز پیدا ہونا ممکن نہیں ۔
پیر رومی
خلوت از اغیار باید نے ز یار پوستیں بہر وے آمد نے بہار
مطلب: اس حقیقت کو جان لے کہ خلوت اور گوشہ گیری غیروں سے چاہیے نا کہ اپنوں سے ۔ پھر پوستین موسم سرما کا لباس ہے کہ موسم بہار کا
مرید ہندی
ہند میں اب نور ہے باقی نہ سوز اہلِ دل اس دیس میں ہیں تیرہ روز
مطلب: ہندوستان کا المیہ یہ ہے کہ یہ خطہ ارض ان لوگوں سے خالی ہو گیا ہے جو روشن دماغ اور دل میں سوز و گداز رکھتے تھے اور سچ تو یہ ہے کہ اہل دل اب سیہ بختی کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں ۔
پیر رومی
کارِ مرداں روشنی و گرمی است کارِ دُوناں حیلہ و بے شرمی است
مطلب: مردان حق کی صفت یہ ہے کہ لوگوں میں ایمان کی روشنی اور عشق کا سوز و گداز پیدا کریں جب کہ کم ظرف لوگ فطرتاً بہانہ جوئی اور بے غیرتی کے حامل رہیں گے تاہم ان کے رویوں کے پیش نظر مردان حق کو اپنے فراءض کی ادائیگی میں زیادہ سرگرمی سے مصروف ہو جانا چاہیے تا کہ انہیں اطمینان قلب حاصل ہو سکے ۔