(57)
تھا جہاں مدرسہَ شیری و شاہنشاہی آج ان خانقہوں میں ہے فقط روباہی
معانی: روباہی: لومڑی کی طرح بزدل ۔
مطلب: ماضی کے حوالے سے اس شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ جن تربیت گاہوں میں شیر شاہ سوری جیسے عظیم المرتبت اور جہاں باہمت حکمرانوں کا دور دورہ تھا وہ آج اپنی بے عملی کے سبب بزدل اور ناکارہ لوگوں کی آماجگاہ ہیں ۔
نظر آئی نہ مجھے قافلہ سالاروں میں وہ شبانی کہ ہے تمہیدِ کلیم اللہی
معانی: شبانی: چراواہا بن کر بکریاں چرانا ۔ کلیم اللہی: حضرت موسیٰ کی طرح سے اللہ سے ہم کلام ہونا، یہاں مراد ہے باطل قوتوں سے ٹکرا جانا ۔
مطلب: ہمارے عہد کے قائدین میں وہ تربیت اور جوہر مفقود ہے جو کہ حضرت موسیٰ جیسے باوقار پیغمبر میں موجود تھا ۔ مراد یہ ہے کہ جس طرح حضرت موسیٰ نے سالہا سال تک حضرت شعیب کی بکریاں چرا کر اپنا مقصود حاصل کیا اور بنی اسرائیل کی رہنمائی کا شرف پایا ۔
لذت نغمہ کہاں مرغِ خوش الحان کے لیے آہ اس باغ میں کرتا ہے نفس کوتاہی
معانی: خوش الحان: اچھی آواز والا ۔
مطلب: جس ناسازگار ماحول میں حبس کا سا سماں ہو وہاں کسی بھی آزاد منش انسان کے لیے سانس لینے کی گنجائش کہاں ہوتی ہے ۔
ایک سرمستی و حیرت ہے سراپا تاریک ایک سرمستی و حیرت ہے تمام آگاہی
معانی: ایک سرمستی و حیرت: مراد عشق ۔ تمام آگاہی: پوری طرح باخبر ہونا ۔
مطلب: جو شخص معرفت الہٰی سے آگاہ ہوتا ہے ایک سرمستی و حیرت تو اس کے لیے ہر ممکن سطح پر آگاہی کی آئینہ دار ہوتی ہے ۔ جب کہ اسی حوالے سے دوسرا عمل فلسفیوں سے تعلق رکھتا ہے جہاں سرمستی و حیرت کے باوجود کسی منزل پر نہیں پہنچ سکتا ۔
صفتِ برق چمکتا ہے مرا فکرِ بلند کہ بھٹکتے نہ پھریں ظلمتِ شب میں راہی
معانی: صفتِ برق: بجلی کی طرح ۔ فکر بلند: بلند خیالی ۔ ظلمتِ شب: رات کا اندھیرا ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ میری فکر اس بلند اور روشن ہے کہ اس کو برق تابناک سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ جو شب کی تاریکی میں مسافروں کی رہنمائی کرتی ہے ۔ چنانچہ اگر یہ کہا جائے کہ میری فکر اور میری شاعری بھی اسی طرح سے انسانوں کی رہنمائی کے فراءض انجام دیتی ہے تو کسی طور پر یہ بات غلط نہ ہو گی ۔ اقبال کے نزدیک ان کی فکر اور شاعری روشن چراغ کی مانند ہے جو لوگوں کو راہ دکھاتا ہے ۔