(22)
یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صبح گاہی کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی
معانی: بادِ صبح گاہی: صبح کی خوشگوار ہوا ۔ عارف: آشنا ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال نے خودی کے معاملات پر یوں کہا ہے کہ صبح کی خوشگوار ہوا مجھے یہ پیغام دے گئی ہے کہ جو لوگ خودی کے مقام سے آشنا ہیں وہ رتبے میں بادشاہ سے کم نہیں ہوتے ۔
تری زندگی اسی سے تری آبرو اسی سے جو رہی خودی تو شاہی ، نہ رہی تو رُوسیاہی
معانی: آبرو: عزت ۔ روسیاہی: رسوائی ۔
مطلب: اس شعر میں بھی یہ کہا گیا ہے کہ زندگی میں خودی کے حوالے سے اور انسانی آبرو بھی اسی پیمانے سے ماپی جاتی ہے ۔ خودی قائم ہے تو یہ جان لے کہ تیرے ہاتھ بادشاہی آ گئی اور اگر قائم نہ رہی تو تیرے لیے بربادی یا رسوائی کے سوا اور کچھ نہ ہو گا ۔
نہ دیا نشانِ منزل مجھے اے حکیم تو نے مجھے کیا گلہ ہو تجھ سے تو نہ رہ نشیں نہ راہی
مطلب: اے فلسفی! تو نے اپنے تمام تر علم و دانش کے باوجود منزل کے نشان سے بھی آگاہ نہیں کیا لیکن اس ضمن میں تجھ سے کسی قسم کا گلہ بے معنی ہے کہ تو خود اپنے آپ میں مگن رہنے والا ہے ۔ تجھے اس سے کیا غرض کہ منزل کون سی ہے اور کیسے اس کی رہنمائی کرنی ہے ۔
مرے حلقہَ سخن میں ابھی زیرِ تربیت ہیں وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ و رسمِ کجکلاہی
معانی: رسم کجکلاہی: ٹیڑھی ٹوپی والے ۔ صاحب شان و شوکت ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ میرے گردوپیش جمع ہونے والوں میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں اور میں ان کی تربیت کر رہا ہوں ۔ یہ درست ہے کہ لوگ ایسے درویش ہیں جو بادشاہوں کے طور طریقوں سے پوری طرح آگاہ ہیں ۔
یہ معاملے ہیں نازک، جو تری رضا ہو تو کر کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریقِ خانقاہی
مطلب: اے صوفی! جہاں تک عقائد کے معاملات کا تعلق ہے ان کی نزاکت سے میں پوری طرح آگاہ ہوں اور سوائے اس کے کہ میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ تو نے جو خانقاہی نظام راءج کیا ہے کم از کم مجھے تو وہ پسند نہیں ہے ۔ اس کے باوجود یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ جو تیری مرضی ہے تو کر ۔ یعنی راءج پند و نصاءح کے بجائے میں نے تو تجھے تیرے حال پر چھوڑ دیا ہے ۔
تو ہُما کا ہے شکاری ابھی ابتدا ہے تیری نہیں مصلحت سے خالی یہ جہانِ مرغ و ماہی
معانی: ہُما: ایک خیالی پرندہ، جس کا سایہ کسی پر پڑ جائے تو وہ بادشاہ بن جاتا ہے ۔ جہانِ مرغ و ماہی: پرندوں اور مچھلیوں کی دنیا ۔
مطلب: شاعر مشرق کہتے ہیں کہ تو نے ابھی عملی زندگی میں جدوجہد کا آغاز تو کر دیا لیکن اپنے گردوپیش کے معاملات سے آگاہی کے بغیر اس بلندی پر پہنچنے کی سعی میں مصروف ہو گیا ہے جو دیکھا جائے تو کسی طور پر بھی تیری دسترس میں نہیں لیکن تو ہے کہ اپنے گردوپیش کو نظر انداز کر کے ایک لا یعنی عمل میں مصروف ہے ۔
تو عرب ہو یا عجم ہو ترا لا الہ الّا لغتِ غریب جب تک ترا دل نہ دے گواہی
معانی: لغتِ غریب: نامعلوم علم ۔
مطلب: اقبال نظم کے اس آخری شعر میں مسلمان سے مخاطب ہیں ان کا کہنا ہے کہ قطع نظر اس کے کہ تیرا تعلق عرب سے ہے یا عجم سے ۔ تیرے لیے لا الہ الاہی حقیقی پیغام ہے ۔ لیکن اسے محض زبان سے کہہ دینا ہی کافی نہیں ہے ۔ اس کے لیے لازم ہے کہ تیرا دل بھی اس کی گواہی دے تو عملی سطح پر اس کی تصدیق نہ کرے تو پھر جان لینا چاہیے کہ یہ کسی ایسی زبان کا لفظ ہے جسے نہ تو سمجھ سکتا ہے نہ کسی کو سمجھا سکتا ہے ۔