Please wait..

(24)

 
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

معانی: خرد: عقل ۔
مطلب:ہمارے دانشور اور فلسفی مستعار نظریات اور ادھر ادھر سے اکٹھی کی ہوئی باتوں کے علاوہ حقائق کے اظہار سے محروم ہیں اور یہ بھی نہیں جانتے کہ معاشرتی سطح پر جو خامیاں موجود ہیں ان کا تدارک کسی صاحب دل کی نگاہ دوررس سے ہی ہو سکتا ہے ۔

 
ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں

مطلب: تیرا مرتبہ ہر مقام سے بلند ہے تاہم اس بھید کو پانا ناگزیر ہے کہ زندگی ایک طرح سے مسلسل جدوجہد اور عمل سے عبارت ہے ۔

 
گراں بہا تو حفظِ خودی سے ہے ، ورنہ
گہر میں آب و گہر کے سوا کچھ اور نہیں

مطلب: جس طرح سے موتی کی قدروقیمت کا اندازہ اس کی آب و تاب سے کیا جا سکتا ہے اسی طرح انسان کی قدروقیمت خودی کے تحفظ سے ہے ۔

 
رگوں میں گردشِ خوں ہے اگر تو کیا حاصل
حیات سوزِ جگر کے سوا کچھ اور نہیں

مطلب: زندگی فی الواقع جگر میں سوز و گداز سے لبریز ہونے کا نام ہے ۔ محض رگوں میں خون کی گردش کا نام ہی زندگی نہیں ۔

 
عروسِ لالہ! مناسب نہیں ہے مجھ سے حجاب
کہ میں نسیمِ سحر کے سوا کچھ اور نہیں

مطلب: یہاں اقبال کہتے ہیں کہ اے میرے محبوب تو تو گل لالہ کیا طرح سرخ ہے مجھ سے حجاب کیا کہ میں تو نسیم سحر کے مانند ہوں ۔

 
جسے کساد سمجھتے ہیں تاجرانِ فرنگ
وہ شے متاعِ ہنر کے سوا کچھ اور نہیں

مطلب: مغربی تاجر حقیقی ہنر کی قدروقیمت کو نظر انداز کر کے نمائشی ہنر کی بدولت روزی کما رہے ہیں ۔ جو باتیں عالم انسانیت کے لیے مفید ہیں انہیں پس پشت ڈال رہے ہیں حالانکہ اصل شے ہنر کی متاع ہے ۔

 
بڑا کریم ہے اقبالِ بے نوا لیکن
عطائے شعلہ شرر کے سوا کچھ اور نہیں

مطلب: نظم کے اس آخری شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ میرا کل اثاثہ عشق حقیقی ہے ہے اور اپنے گردوپیش کے لوگوں میں میں اسی اثاثہ سے حسب استطاعت تقسیم کرتا رہتا ہوں ۔