Please wait..

عشرتِ امروز

 
نہ مجھ سے کہہ کہ اجل ہے پیامِ عیش و سرور
نہ کھینچ نقشہَ کیفیتِ شرابِ طہور

معانی: عشرت: عیش، خوشی ۔ امروز: آج ۔ اجل: موت ۔ عیش و سرور: سکھ چین اور خوشی ۔ نقشہ کھینچنا: منظر کشی کرنا ۔ شراب طہور: پاکیزہ شراب جو جنت میں ملے گی ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال واعظ کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تو میرے سامنے حیات بعد ممات کا جو نقشہ پیش کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ موت تو فی الواقع عیش و عشرت کا پیغام ہے ۔ اس کے ساتھ ہی تو مجھے شراب طہور کا جھانسہ بھی دے رہا ہے کہ جنت میں پینے پلانے پر کوئی پابندی نہیں ہو گی ۔ اور یہ شراب طہور میں وہ نشہ ہے جو دوسری شرابوں میں نہیں ۔

 
فراقِ حور میں ہو غم سے ہمکنار نہ تو
پری کو شیشہَِ الفاظ میں اتار نہ تو

معانی: فراق: جدائی ۔ حور: حورا کی جمع، جنت کی خوبصورت عورتیں ۔ ہمکنار ہونا: بغل گیر ہونا ۔ پری: قصہ کہانی کی خوبصورت عورت جو اڑتی بھی ہے ۔ شیشہَ الفاظ میں اتارنا: لفظوں میں قابو کرنا ۔
مطلب: سو اے واعظ! میں تجھ سے واضح طور پر یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ جنت کی حور کے تصور اور اس کی جدائی میں خود کو مایوسی کے کرب میں گرفتار نہ کر ۔ ساتھ ہی دوسروں کے لیے اس پری کو لفاظی شیشے میں نہ اتار ۔

 
مجھے فریفتہَ ساقیِ جمیل نہ کر
بیانِ حور نہ کر، ذکرِ سلسبیل نہ کر

معانی: فریفتہ: دیوانہ، عشق ۔ جمیل: حسین، خوبصورت ۔ بیان: ذکر ۔ سلسبیل: بہشت کی ایک نہر ۔
مطلب: اے واعظ مجھے اس خیالی اور تصوراتی حسین و جمیل ساقی کے تذکرے میں نہ الجھا ۔ نہ میرے روبرو حوروں کا تذکرہ کر ۔ نا ہی جنت میں موجود اس نہر کا جسے سلسبیل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔

 
مقامِ امن ہے جنت مجھے کلام نہیں
شباب کے لیے موزوں ترا پیام نہیں

معانی: مقام امن: سکون اور آرام کی جگہ ۔ مجھے کلام نہیں : مجھے شک، اعتراض نہیں ۔ شباب: جوانی ۔
مطلب: بے شک مجھے اس خیال سے اختلاف نہیں کہ جنت میں ہر طرح سے امن و امان ہو گا اور دنیا کی طرح ہنگامے نہیں ہوں گے لیکن اے واعظ! تیری یہ خوش کلامیاں عالم شباب کے لیے ناقابل التفات ہیں کہ جوانی کے نزدیک وہ عیش کوئی حیثیت نہیں رکھتا جس کے لیے موت کے بعد تک کا انتظار کرنا پڑے ۔

 
شباب آہ! کہاں تک امیدوار رہے
وہ عیش، عیش نہیں جس کا انتظار رہے

معانی: شباب: جوانی ۔ موزوں : مناسب، ٹھیک ۔ امیدوار: تمنا رکھنے والا ۔
مطلب: شباب کا عقیدہ تو یہ ہے کہ عیش و عشرت وہی ہے جو انسان کو آج حاصل ہو ۔ شباب آخر کتنے عرصے تک حور و شراب اور ساقی کا انتظار کرسکتا ہے ۔ اس کے لیے عیش و عشرت وہی ہے جو اسے کسی انتظار کے بغیر حاصل ہو جائے ۔

 
وہ حُسن کیا ہے جو محتاجِ چشمِ بینا ہو
نمود کے لیے منت پذیرِ فردا ہو

معانی: محتاج: حاجت مند ۔ چشمِ بینا: دیکھنے والی آنکھ ۔ منت پذیر: احسان اٹھانے والا ۔ فردا: آنے والا کل، مستقبل ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ اے واعظ! یہ تو بتا کہ اس حسن کی حیثیت کیا ہے جو کسی دیکھنے والی آنکھ کا محتاج ہو اور اپنے وجود کے اظہار کی خاطر مستقبل کا احسان اٹھانے پر مجبور ہو ۔ جب کہ میں اس حسن کا قائل ہوں جس کو آج میری نگاہیں دیکھ رہی ہوں ۔

 
عجیب چیز ہے احساس زندگانی کا
عقیدہ عشرتِ امروز ہے جوانی کا

معانی: عقیدہ: یقین، ایمان ۔
مطلب: زندگانی کا احساس تو اس مفروضے سے قطعی مختلف ہے جس کا اظہار اے واعظ تو ہمارے روبرو ہزار بار کر چکا ہے ۔ اس لیے کہ میرے نزدیک تو شباب اس عقیدے کا حامل ہے کہ جو کچھ ملنا ہے آج مل جائے کل کا انتظار کون کرے ۔ ان اشعار میں بظاہر اقبال نے حیات بعد ممات کے عقیدے کی نفی کی ہے ۔ جنت، حور و غلماں اور شراب طہور کے بارے میں واعظ کو طنز کا نشانہ بنایا ہے ۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ انھوں نے ایک ایسے فرد کے جذبات کا اظہار کیا ہے کہ جو عالم شباب میں ہے ۔ کس کا نقطہ نظر واعظ سے خیالات سے کسی طور پر بھی ہم آہنگ نہیں ۔ وہ تو زندگی میں اس امر کا قائل ہے کہ عالم شباب میں ہی حقیقی لطف سے ہمکنار ہوا جا سکتا ہے ۔