Please wait..

خلوت

 
رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے
روشن ہے نگہ آئینہِ دل ہے مکدر

معانی: جلوت: نمود، نمائش ۔ آئینہ دل: دل کا شیشہ ۔ مکدر: میلا ۔
مطلب: عہد حاضر جو مغربی تہذیب و تمدن اور افکار و خیالات کے اجزا سے بنا ہے نمود و نمائش کا زیادہ قائل ہے اور اس کی وجہ آدمی کی ہوس ہے جو اسے اپنی نمود پر مجبور کرتی ہے ۔ اس سے آدمی کی نگا ہ تو روشن ہو گئی ہے لیکن اس کے دل کا شیشہ میلا ہو گیا ہے ۔

 
بڑھ جاتا ہے جب ذوقِ نظر اپنی حدوں سے
ہو جاتے ہیں افکارِ پراگندہ و ابتر

معانی: ذوق نظر: نظارے کی لذت ۔ پراگندہ: منتشر، بکھرے ہوئے ۔ ابتر: برے ۔
مطلب: جب آدمی کی ہوس نظارے کی لذت کو حد سے زیادہ بڑھا دیتی ہے تو پھر آدمی اچھے اور برے کے دیکھنے یا نہ دیکھنے میں تمیز روا نہیں رکھ سکتا اور اس کے خیالات منتشر اور خراب ہو جاتے ہیں ۔

 
آغوشِ صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے
وہ قطرہَ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر

معانی: آغوش صدف: سیپی کی گود ۔ قطرہَ نیساں : خاص ابر بہار کا قطرہ ۔ گوہر: موتی ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ نے اس نمود اور اس نظر کی لذت کا جسے آدمی کی ہوس پیدا کرتی ہے تنہائی اور خلوت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے اور جلوت پر خلوت کی بڑائی کو ایک قدرتی مثال سے سمجھایا ہے ۔ ایک خاص قسم کی بہار کا بادل جب برستا ہے تو وہ سیپ جو سمندر کی سطح پر منہ کھولے تیر رہے ہوتے ہیں ان قطروں کو اپنی آغوش یا اپنے پیٹ میں لے لیتے ہیں اور پھربرسوں سمندر کی تہہ کی تنہائیوں میں بیٹھ جاتے ہیں اور اس طرح بارش کے قطرے ان کے پیٹ میں موتی بن جاتے ہیں ۔ اگر کوئی سیپ تنہائی اختیار نہ کرے تو یہ قطرے چاہے ابر نیساں کے کیو ں نہ ہوں موتی نہیں بن سکتے ۔

 
خلوت میں خودی ہوتی ہے خود گیر و لیکن
خلوت نہیں اب دیر و حرم میں بھی میسر

معانی: خود گیر: اپنی تربیت میں مشغول ۔ دیر و حرم: مندر اور مسجد ۔ میسر: حاصل ۔
مطلب: خودی کی تربیت کے لیے تنہائی کا ہونا ضروری ہے ۔ مسلمان صوفیائے کرام اپنی ابتدائی زندگی میں اپنی اور اپنے خدا کی معرفت حاصل کرنے کے لیے جب ریاضت اور محنت کرتے تھے تو آبادیوں کے شورو غل سے دور بیابانوں میں جا کر یاد خدا میں مشغول ہو جاتے تھے اور یوں وہ قدرت کے نظاروں کے قریب تر ہوتے تھے ۔ لیکن آبادیوں کے اندر رہ کر کھوئی ہوئی خودی کو تلاش کرنا بہت باعظمت کام ہے اور ہر کسی کے بس میں نہیں ۔ اسی طرح وہ خود شناسی کی دولت لے کر دنیا کو ہدایت دینے کے لیے جلوت میں آ جاتے تھے ۔ شاعر کہتا ہے کہ یہ تنہائی جو اپنی اور اپنے خدا کی معرفت کے لیے لازمی ہے آج کل نہ کعبے میں نظر آتی ہے نہ مندر میں ۔ مراد یہ ہے کہ آدمی کے اندر جلوت اور خود نمائی کی اتنی ہوس پیدا ہو چکی ہے کہ دین و دنیا میں اسے کہیں بھی وہ خلوت حاصل نہیں ہے جو معرفت کے لیے ضروری ہے ۔