Please wait..

(11)

 
ہزار خوف ہو، لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

معانی: قلندروں کا طریق: اللہ والوں کا طریقہ ۔
مطلب: آغاز کائنات سے خدا کے نیک اور وفا شعار لوگوں کا یہی طرز عمل رہا ہے کہ کتنے بھی نامساعد حالات ہوں ان کا دل عشق حقیقی اور زبان پر ہمیشہ کلمہَ حق رہا ہے ۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے بے شمار قربانیاں دیں اور سچ کہنے سے گریز نہیں کیا ۔

 
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیرِ مغاں ہے مردِ خلیق

معانی: شراب خانے: یہاں مراد اللہ والوں کی محفل ۔ پیر مغاں : رہنما ۔ مردِ خلیق: اچھے اخلاق والا ۔
مطلب: شراب خانے میں نسبتاً زیادہ ہجوم محض اس لیے ہے کہ شراب خانے کا مالک انتہائی خلیق شخص ہے ۔ تا ہم علامہ کی مراد یہ ہے کہ شفقت محبت اور اخلاق ہی ایسے عناصر ہیں جو کسی ایک فرد میں یکجا ہو جائیں تو عام لوگ اس کے گرد و پیش جمع ہو جاتے ہیں اور اس کی باتیں بڑے احترام کے ساتھ سنتے ہیں ۔

 
علاجِ ضعفِ یقیں ان سے ہو نہیں سکتا
غریب اگرچہ ہیں رازی کے نکتہ ہائے دقیق

معانی: علاجِ ضعفِ یقیں : یقین کی کمزوری کا علاج ۔
مطلب: ہر چند کہ امام رازی کی تعلیمات حکمت و دانائی کی آئینہ دار تھیں اس کے باوجود وہ ان لوگوں کے لیے زیادہ مفید اور کارآمد نہیں ہو سکتیں جن کا ایمان کمزور دل یقین و اعتماد سے خالی ہے یقین و اعتماد تو محض عشق حقیقی ہی پیدا کر سکتا ہے ۔

 
مریدِ سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب
خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق

معانی: توفیق: ہمت ۔
مطلب: بقول اقبال آج کل کے پیران کرام کا کردار یہ ہے کہ وہ اپنے سادہ دل مریدوں کو حق پرستی کی ترغیب تو دیتے رہتے ہیں لیکن خود تعلیمات پر عمل نہیں کرتے ۔ جن پر عمل کے لیے اپنے مریدوں کو اکساتے ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ ان پیروں کے قول و فعل میں تضاد ہے ۔ مرید تو خیر اپنی سادہ لوحی کی بنا پر اپنے پیروں کے اقوال پر ایمان لے آتے ہیں لیکن خود پیروں کا یہ حال ہے کہ اپنے منافقانہ کردار سے انحراف کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔

 
اسی طلسمِ کہن میں اسیر ہے آدم
بغل میں اس کے ہیں اب تک بتانِ عہدِ عتیق

معانی: طلسمِ کہن: پرانا جادو ۔ اسیر: قیدی ۔ بتانِ عہد عتیق: پرانے زمانے بُت ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ اس سے بڑی بدقسمتی کی بات او رکیا ہو سکتی ہے کہ انسان ابھی تک اس ترقیاتی عہد میں بھی دورجاہلیت کی برائیوں سے نجات حاصل نہیں کر سکا ۔ آج بھی برادری، رنگ و نسل ، قبیلے ، فرقے اور اسی نوع کی دوسری برائیوں کا وجود برقرار ہے اور آج انسان انہی جھگڑوں میں الجھا ہوا ہے ۔

 
مرے لیے تو ہے اقرارِ با اللساں بھی بہت
ہزار شکر، کہ مُلّا ہیں صاحبِ تصدیق

معانی: اقرار باللسان: زبان سے اقرار ۔ صاحب تصدیق: دل سے تصدیق کرنے والا ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال نے ملاؤں پر زبردست طنز کیا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ میں تو ایک ایسا سیدھا سادا مسلمان ہوں جس کے روبرو اسلام کا زبانی اقرار کر لینا ہی کافی ہے جب کہ ملاؤں نے تو یہ وطیرہ اختیار کیا ہوا ہے کہ وہ ہر امکانی طریق پر ان کے زیر اثر آئے ہوئے مسلمانوں کے عقائد کو کھنگالتے ہیں اور اس کے بعد بہت کم خوش قسمت ایسے ہوتے ہیں جو ان کے معیار پر پورا اترتے ہیں ۔

 
اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مردِ مسلماں بھی کافر و زندیق

معانی: زندیق: ملحد
مطلب: دیکھا جائے تو اس شعر میں اقبال نے بڑے فلسفیانہ اور حقیقت پسندانہ انداز میں اسلام کی تعریف کی ہے کہ حقیقی اسلام کیا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ انسان کے دل میں عشق حقیقی کی تڑپ موجود ہو تو کفر بھی مسلمانی میں تبدیل ہو جاتا ہے اور اگر دل میں عشق حقیقی کی تڑپ نہ ہو تو کسی مسلمان اور کافر و ملحد میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا ۔ مراد یہ ہے کہ مسلمان کے لیے بنیادی شرط عشق حقیقی ہے ۔ اس جذبے کے زیر اثر وہ احکام الہٰی پر کاربند رہتا ہے اور احکام الہٰی پر عمل کئے بغیر کوئی مسلمان مسلمان نہیں ہے بلکہ اس میں اور کافر و ملحد میں کوئی فرق نہیں رہتا ۔