Please wait..

ملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض
(۱)

 
پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب
مرغانِ سحر تیری فضاؤں میں ہیں بیتاب
اے وادیِ لولاب

تعارف: بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو ، کے عنوان سے لکھی جانے والی نظم میں جس طرح علامہ نے بڈھا بلوچ ایک خیالی کردار تخلیق کیا ہے اسی طرح مندر بالا عنوان میں ملا ضیغم کے نام سے ایک فرضی شخص کا نام لیا گیا ہے جس کا تعلق برصغیر کے شمال کے ایک خوبصورت علاقہ کشمیر کی ایک وادی لولاب سے پیدا کیا گیا ہے اور اس کی یادداشتوں کی ایک فرضی بیاض (کاپی یا ڈائری) بتائی گئی ہے جس میں درج اس کے فرضی خیالات کو اقبال نے 19 نظموں میں قلم بند کیا ہے ۔ ان سب کا مقصود کشمیریوں کو کشمیری ہندو راجہ کی غلامی سے آزاد ہونے کا یقین کرنے، ان کو آزادی کی قدر و قیمت بتانے اور ان کی سوئی ہوئی صلاحیتوں کو جگانے سے ہے ۔
معانی: سیماب: پارہ ۔ مرغان سحر: صبح کے پرندے ۔ بے تاب: بے قرار ۔
مطلب: اس نظم میں وادی لولاب کو یا اس وادی کے باشندوں کو خطاب کرتے ہوئے علامہ ملا ضیغم لولابی کی زبان سے کہتے ہیں کہ اے لولاب کی وادی تو بہت خوبصورت ہے ۔ تیرے چشموں کا پانی پارہ کی طرح صاف، شفاف، سفید اور تڑپتا ہوا ہے اور تیری فضاؤں میں صبح کے وقت چہچہانے والے پرندے ادھر سے ادھر اڑتے پھرتے ہیں ۔

 
گر صاحبِ ہنگامہ نہ ہو منبر و محراب
دیں بندہَ مومن کے لیے موت ہے یا خواب
اے وادی لولاب

معانی: صاحب ہنگامہ: ولولہ یا شورش رکھنے والا ۔ منبر و محراب: مسجد کی دو جگہیں جن میں سے منبر پر بیٹھ کر خطیب خطبہ دیتا ہے اور محراب کے نیچے کھڑے ہو کر امام امامت کراتا ہے ۔ دین: مذہب اسلام ۔ بندہ مومن: صاحب ایمان ۔
مطلب: اگر تیری مسجدوں کے خطیب اور امام اپنے دلوں میں دین کے لیے صحیح تڑپ اور ولولہ نہیں رکھتے اور اگر مسجد کے منبروں اور محرابوں سے لوگوں میں آزادی اورر جہاد کا ولولہ پیدا کرنے والی آوازیں نہیں اٹھتیں تو پھر ان کے دین کو دین کہنا غلط ہے ۔ دین تو سعی و عمل اور آزادی کا سبق دیتا ہے ۔ اے اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھنے والے شخص سمجھ لے کہ جس دین میں یہ باتیں نہیں ہیں وہ دین موت اور خواب کے برابر ہے ۔ اے وادی لولاب خدا کرے تیرے علمائے دین میں اور تیرے اماموں اور خطیبوں میں دین کی صحیح سمجھ پیدا ہو جائے اور انہیں تیرے باشندوں تک اس کے صحیح ابلاغ کا خیال آ جائے ۔

 
ہیں ساز پہ موقوف نوا ہائے جگر سوز
ڈھیلے ہوں اگر تار تو بے کار ہے مضراب
اے وادیِ لولاب

معانی: ساز: موسیقی کا آلہ ۔ موقوف: منحصر ۔ نواہا: نوا کی جمع، نوا: آواز ۔ جگر سوز: جگر جلا دینے والی ۔ مضراب: ایک خاص قسم کا تار جسے انگلی میں پہن کر ساز کے تاروں کو چھیڑتے ہیں اور ان سے نغمہ پیدا ہوتا ہے ۔
مطلب: اس بند میں علامہ نے ساز اور اس سے متعلقہ علامتوں کے استعمال سے اپنا مفہوم واضح کیا ہے اور کہا ہے کہ اے وادی لولاب کے باشندو جس طرح کسی ساز کے ڈھیلے تاروں سے ان کو مضراب سے چھیڑنے کے باوجود جگر کو جلا دینے والے نغمے پیدا نہیں ہوتے اسی طرح جب تک تم اپنے اندر دین کے لیے صحیح جذبہ اور تڑپ پیدا نہیں کرو گے دین تم میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکے گا ۔ یہ خطاب عام مسلمانوں کے لیے بھی ہو سکتا ہے اور ان کے رہنماؤں خصوصاً علما اور صوفیا کے لیے بھی ۔

 
مُلا کی نظر نورِ فراست سے ہے خالی
بے سوز ہے میخانہَ صوفی کی مئے ناب
اے وادیِ لولاب

معانی: ملا: دین کا نمائندہ ۔ صوفی: روحانیت کا نمائندہ ۔ نور فراست: بصیرت کا نور، معاملات کی تہ اور انجام تک پہنچانے والی روشنی ۔ بے سوز: جس میں حرارت نہ ہو ۔ میخانہ: شراب خانہ ۔ مئے ناب: خالص شراب ۔
مطلب: اے وادی لولاب آج تیرے شریعت اور طریقت کے علم برداروں کی حالت ناگفتہ بہ ہے ۔ شریعت کے حامل مولوی ، ملا اور علما بصیرت کے اس نور سے بے بہرہ ہیں جس سے وہ مسلمانوں کو درپیش معاملات کی اصلیت کو پا سکیں اور انجام تک کو دیکھ سکیں ۔ صوفی جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس وجدان کی شراب ہے اور یہ خالص شراب پی کر آدمی اللہ میں مست اور دوسری مستی سے کنارہ کش ہو جاتا ہے وہ بھی رسم کے صوفی رہ گئے ہیں ان کے شراب خانہ میں اب وہ خالص شراب جس کو پی کر پینے والے کی روح میں حرارت پیدا ہو جائے باقی نہیں رہی ۔

 
بیدار ہو دل جس کی فغانِ سحری سے
اس قوم میں مدت سے وہ درویش ہے نایاب
اے وادی لولاب

معا نی: بیدار ہوں: جاگ پڑیں ، زندہ ہو جائیں ۔ فغاں سحری: صبح کی فریاد ۔ درویش: فقیر ، روحانیت کا علم بردار ۔ نایاب ہے: ملتا نہیں ہے ۔
مطلب: مسلمان کو اور مسلمان کے معاشرے کو خالصتاً اللہ کے لیے وقف کر دینے اور اسے دیناوی حرص و ہوس سے آزاد بنا دینے کا کام صرف درویش کرتا ہے ۔ وہ جو خود اللہ بس اور باقی ہوس کے اصول کے تحت زندگی بسر کر رہا ہو اور وہ خود بخود فانی اور بحق باقی ہو اس کی صحبت کے فیض اور نگاہ کی تاثیر سے دل زندہ ہو جاتے ہیں ۔ دل زندہ ہونے سے مراد دلوں کی وہ زندگی نہیں جو ان کو ہمارے سینے میں دھڑکا رہی ہے بلکہ یہ ایک روحانی زندگی ہے جو ان کو غیر اللہ کے بتوں سے خالی کر کے اور بعد میں اللہ کو بسا کر حاصل ہوتی ہے ۔ مرد درویش کے صبح کے وہ نالے اور وہ فریادیں جو وہ ہر طرف اور ہر چیز سے منہ موڑ کر ذکر و فکر کی صورت میں کرتا ہے اس کی صحبت میں بیٹھنے والوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں اور ان میں ایک قسم کی روحانی تبدیلی پیدا کر کے ان میں انسانیت کی اور مسلمانی کی صحیح صفات پیدا کر دیتی ہیں ۔ علامہ اس بات پر ملاضیغم کی زبان سے افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ اب ایک مدت سے مسلمان قوم میں اس قسم کے درویش پیدا نہیں ہو رہے ۔ باپ دادا کی روحانی وراثت کی بجائے دنیاوی وراثت کے اعتبار سے تو گدی نشین جگہ جگہ نظر آئیں گے ۔ پیشہ ور، جعل ساز، لوٹ کھسوٹ کر نے والے اور اپنی خانقاہوں کی دنیاوی رونق بڑھانے والے تو بہت ملیں گے ۔ لیکن اللہ کا وہ درویش جو خالصتاً اللہ کے لیے جیتا اور مرتا تھا جو مظہر صفات الہٰی ہو کر بندہ مولا صفات بن چکا ہوتا تھا وہ جس کی مرضی اللہ کی مرضی میں گم ہوتی تھی اور اس بنا پر اللہ کی مرضی کے مطابق ہر چیز استوار کر دیتا تھا وہ جس کے ہاتھوں میں زمانے کے گھوڑے کی باگ دوڑ ہوتی تھی اور وہ اسے جدھر چاہے موڑنے کی اہلیت رکھتا تھا وہ جس کے بوریا سے تخت لرزا کرتے تھے اور وہ جس کے جھونپڑی کے آگے محل جھک جاتے تھے اب کہیں نظر نہیں آتا ۔

(۲)

 
موت ہے اک سخت تر، جس کا غلامی ہے نام
مکر و فنِ خواجگی کاش سمجھتا غلام

معانی: مکر و فن خواجگی: آقاؤں کا مکر اور فریب ۔ کاش: خدا کرے ایسا ہوتا ۔
مطلب: ایک موت تو وہ ہے جو طبعی ہے ۔ جس میں آدمی کے بدن سے روح نکل جاتی ہے لیکن کسی اور عالم میں زندہ رہتی ہے ۔ اس کے علاوہ ایک اور موت بھی ہے ۔ اس دوسری موت میں روح تو بدن سے نہیں نکلتی آدمی زندہ تو ہوتا ہے لیکن زندہ ہوتے ہوئے اس کی روح بدن میں مر جاتی ہے ۔ روح کی اس موت کا نام ملا ضیغم کی زبان سے اقبال نے غلامی رکھا ہے ۔ یہ اصل اور طبعی موت سے بھی بری اور سخت ہوتی ہے ۔ اس میں غلام کی مرضی اس کے آقا کی مرضی میں گم رہتی ہے ۔ وہ اپنے آقا کے تابع فرمان ہو کر وہی کچھ کرتا ہے جو اس کا آقا چاہتا ہے ۔ غلامی سے آزاد ہونے کی آرزو اول تو غلام میں پیدا ہی نہیں ہوتی لیکن اگر ہو بھی جائے تو مر جاتی ہے یا خام رہتی ہے اس کے آقا اپنے مکر و فن اور حیلے بہانے سے اسے غلامی کے چکر سے نکلنے ہی نہیں دیتے ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ملوکیت کے جملہ مہرے جن میں بادشاہ، جاگیردار، بڑے زمیندار، سرمایہ دار وغیرہ سب آتے ہیں مکاری اور عیاری کے فن میں اتنے ماہر ہوتے ہیں کہ وہ اپنے زیر فرمان اور ماتحت لوگوں کو اس فن کے جادو سے غلامی کی قید سے اسی طرح مانوس کر دیتے ہیں جس طرح قیدی پرندہ پنجرے سے مانوس ہو جاتا ہے اور اس کے پر مفلوج ہو کر اڑنے کے قابل نہیں رہتے ۔

 
شرعِ ملوکانہ میں جدتِ احکام دیکھ
صور کا غوغا حلال، حشر کی لذت حرام

معانی: شرع ملوکانہ: بادشاہت کے قوانین، بادشاہت کا مذہب ۔ جدت: نیا پن ۔ احکام: حکم کی جمع ۔ صور: ایک آلہ جسے جب قیامت کے روز اسرافیل نامی ایک فرشتہ پھونکے گا تو سب مردے جی اٹھیں گے اور میدان قیامت میں جمع ہو جائیں گے ۔ حساب: کتاب دینے اور جزا و سزا سننے کے لیے ۔ غوغا: شور ۔ حلال: جائز مذہبی طور پر ۔ حرام: ناجائز مذہبی طور پر ۔
مطلب: ملوکیت کے مذہب یا بادشاہت کے قانون کی بنیادی شق یہ ہے کہ غلاموں کو کسی طور پر غفلت سے جاگنے اور جاگ کر آزادی کے لیے راہ عمل پر گامزن ہونے کی اجازت نہ دی جائے چاہے اس میں فریب کاری یا قوت کے استعمال سے کام کیوں نہ لینا پڑے ۔ اس صورتحال کا ملا ضیغم نے قیامت کی علامتوں میں سے ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ اسرافیل فرشتے کے صور کا آلہ پھونکنے کا یہ نتیجہ ہو گا کہ اس کی آواز سن کر سب مردے اپنی اپنی قبروں سے نکل کر میدان حشر میں جمع ہو جائیں گے ۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی مردہ صور کی آواز تو سن لے لیکن دوبارہ زندہ ہو کر میدان حشر میں نہ پہنچے لیکن بادشاہت نے اپنے مذہب میں دیکھیے کیا کیا حکم جاری کر رکھے ہیں ۔ ان حاکموں کے تحت صور پھونکنے تک کی بات تو جائز لیکن صور کی آواز سن کر مردوں کے جی اٹھنے اور میدان حشر میں آ جانے کی بات درست نہیں ہے ۔ مراد ہے کہ یہاں تک تو درست ہے کہ غلام کے جی میں اگر آزاد ہونے کا خیال پیدا ہو جائے تو کوئی بات نہیں لیکن اس خیال کو اپنی شاہا نہ قوت اور مکر و فریب سے کام لے کر عملی شکل میں نہ آنے دیا جائے ۔

 
اے کہ غلامی سے ہے روح تری مضمحل
سینہَ بے سوز میں ڈھونڈ خودی کا مقام

معانی:مضمحل: کمزور، ناتواں ۔ سینہ بے سوز: وہ سینہ جس میں حرارت نہیں ہے ۔ خودی: اپنی پہچان، انسانیت ۔ مقام: جگہ ۔
مطلب: اے وہ شخص جس کی روح غلامی کی زندگی بسر کرنے کی وجہ سے کمزور اور ناتواں ہو چکی ہے اور جس کا سینہ عمل کی حرارت سے خالی ہو چکا ہے تجھے اپنی روح کو پھر سے زندہ کرنے اور مضبوط بنانے اور آزادی کی نعمت سے مالامال ہونے کا طریقہ میں بتاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اپنے اندر خودی پیدا کرو ۔ اپنی پہچان کرو اور اس حقیقت کو پا لو کہ میں تو آزاد پیدا ہوا ہوں ۔ آزاد رہنا میرا حق ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی غلامی کے سوا ہر قسم کی غلامی میرے مرتبہ آدمیت اور شرف انسانیت کے خلاف ہے ۔