Please wait..

شمع اور شاعر
(فروری 1912)

شاعر

 
دوش می گفتم بہ شمعِ منزلِ ویرانِ خویش
گیسوئے تو از پرِ پروانہ دارد شانہ اے

معانی:: کل میں اپنے اجڑے گھر میں شمع سے یہ کہہ رہا تھا کہ تیری زلفوں کے لئے پتنگے کے پر ایک کنگھی کا کام دیتے ہیں ۔ یعنی کل میں نے اپنے ویران اور اجاڑ گھر میں جلنے والی شمع سے استفسار کیا کہ پروانے جو ہمہ وقت تیرا طواف کرتے رہتے ہیں بجا طور پر تجھ پر فریفتہ ہیں ۔

 
در جہاں مثلِ چراغِ لالہَ صحراستم
نے نصیبِ محفلے، نے قسمتِ کاشانہ اے

معانی:: دنیا میں میری حالت بیابان میں اگنے والے لالہ کے چراغ کی سی ہے جسے جلنے ، روشنی پھیلانے کے لئے کوئی محفل میسر آئی نہ کوئی گھر ہی نصیب ہوا ۔

 
مدتے مانندِ تو من ہم نفس می سوختم
درطوافِ شعلہ اَم بالے نہ زد پروانہ اے

معانی:: ایک مدت تک میں بھی تیری طرح اپنی جان کو جلاتا رہا لیکن میرے شعلے کے گرد کسی ایک پتنگے نے بھی چکر نہ لگایا، نہ اڑا ۔

 
می طپد صد جلوہ در جانِ امل فرسود من
بر نمی خیزد ازیں محفل دلِ دیوانہ اے

معانی:: میری تمناؤں کی ماری جان میں سیکڑوں جلوے تڑپ رہے ہیں لیکن اس محفل سے تو ایک بھی دلِ دیوانہ ، عاشق نہیں اٹھ رہا ۔

 
از کجا ایں آتشِ عالم فروز اندوختی
کرمکِ بے مایہ را سوزِ کلیم آموختی

معانی:: تو نے کہاں سے یہ دنیا کو روشن کرنے والی آگ حاصل کر لی اور ایک معمولی سے کیڑے کو حضرت موسیٰ کلیم اللہ کی سی عشق کی تڑپ سکھا دی ۔

شمع

 
مجھ کو جو موجِ نفس دیتی ہے پیغامِ اجل
لب اسی موجِ نفس سے ہے نوا پیرا ترا

معانی:: موجِ نفس : سانس کی لہر، ہوا ۔ اجل: موت، بجھ جانا ۔ لب: ہونٹ ۔ نوا پیرا: گیت الاپنے والا ۔
مطلب: شمع اس مرحلے پر شاعر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتی ہے کہ ہر چند تیری اور میری کیفیت ایک جیسی ہے تا ہم فرق یہ ہے کہ جو موجِ نفس تیرے لئے نغمہ پیرائی کا سبب بنتی ہے وہی میرے لئے موت کا پیغام بن جاتی ہے ۔

 
میں تو جلتی ہوں کہ ہے مضمر مری فطرت میں سوز
تو فروزاں ہے کہ پروانوں کو ہو سودا ترا

معانی:: مضمر: چھپا ہوا ۔ فطرت: مزاج، سرشت، خمیر ۔ سوز: جلنے کی حالت ۔ فروزاں : روشن ۔ پروانوں : مراد عاشقوں ۔ سودا: جنون، عشق ۔
مطلب: میں تو محض اس لیے جلتی ہوں کہ میری فطرت میں مقدر نے جلنا لکھ دیا ہے جب کہ تو اپنی تخلیقات میں اس لیے سوز پیدا کرتا ہے کہ تیرے اشعار کو سننے والے تیرے دیوانے بن کر رہ جائیں ۔

 
گریہ ساماں میں کہ میرے دل میں ہے طوفانِ اشک
شبنم افشاں تو کہ بزمِ گل میں ہو چرچا ترا

مطلب: میں اس لیے آنسو ٹپکاتی ہوں کہ میرے دل میں آنسووَں کا ایک طوفان برپا رہتا ہے جب کہ تو اس لیے روتا ہے کہ سننے والوں میں تیرے عشق کا چرچا ہو اور تجھ سے محبت پیدا ہو ۔

 
گل بدامن ہے مری شب کے لہو سے مری صبح
ہے ترے امروز سے نا آشنا فردا ترا

معانی:: گل بدامن: جھولی میں پھول لیے، یعنی آباد ۔ میری شب کا لہو: پھولوں کی سرخی کو شب کا لہو کہا ۔ امروز: آج، زمانہ حال ۔ فردا: آنے والاکل ۔
مطلب: میں تو راتوں کو جل جل کر آنے والی صبح کے لئے لا انتہا قربانیاں دیتی ہوں جبکہ تیرا مستقبل تیرے حال سے قطعاً واقف نہیں مراد یہ کہ تو مستقبل کی بہتری کے لئے جدوجہد نہیں کرتا ۔

 
یوں تو روشن ہے مگر سوزِ دروں رکھتا نہیں
شعلہ ہے مثلِ چراغِ لالہَ صحرا ترا

معانی:: سوزِ دروں : دل کا سوز و گداز ۔
مطلب: بے شک تو بھی میری مانند جلتا رہتا ہے لیکن تیرے دل میں وہ حقیقی سوز نہیں جو میری فطرت میں مضمر ہے ۔ لیکن تیرا شعلہ تو لالہَ صحرا کے رنگ روپ کی طرح ہے ۔

 
سوچ تو دل میں لقب ساقی کا ہے زیبا تجھے
انجمن پیاسی ہے اور پیمانہ بے صہبا ترا

معانی:: لقب: کسی خاص صفت کی بنا پر دیا گیا نام ۔ انجمن: مراد قوم ۔ پیمانہ: دل ۔ بے صہبا: شراب یعنی محبت سے خالی ۔
مطلب: تو خود کو قوم کی مشکلات سے نبرد آزمائی کا دعویدار کہلانے میں فخر محسوس کرتا ہے لیکن سوچ کہ تیرے لقب کہاں تک موزوں ہے ۔ جب کہ نہ تیرے پاس عمل کی قوت ہے نہ ایسے قومی معاملات کو کامیابی سے ہم کنار کر سکے ۔ تیری قوم تو بے وسیلہ ہے اور تو بھی بے عمل اور خالی ہاتھ ہے ۔

 
اور ہے تیرا شعار، آئینِ ملت اور ہے
زشت رُوئی سے تری آئینہ ہے رسوا ترا

معانی:: شعار: طور طریقہ ۔ آئینِ ملت: قوم کا دستور، چلن ۔ زشت رُوئی: بدصورتی، عمل اچھے نہ ہونا ۔ آئینہ: شخصیت ۔
مطلب: اے شاعر! حقیقت یہ ہے کہ تیرے غلط طرز عمل اور اس کے ساتھ بے عملی نے پوری قوم کو بدنام کر دیا ہے ۔ اس لیے بھی کہ تیرا طرزِ عمل ملت کے اصولوں کے قطعاً منافی ہے ۔

 
کعبہ پہلو میں ہے اور سودائیِ بتخانہ ہے
کس قدر شوریدہ سَر ہے شوقِ بے پروا ترا

معانی:: پہلو: دل ۔ شوریدہ سر: دیوانہ، پاگل ۔
مطلب: بظاہر تو حرم کعبہ کا پرستار ہے جب کہ عملاً تیری فطرت بتکدے سے ہم آہنگ ہے ۔ تیرا شوق ِ بے پروا کس قدر دیوانہ ، مجنوں ہے ۔

 
قیس پیدا ہوں تری محفل میں ، یہ ممکن نہیں
تنگ ہے صحرا ترا، محمل ہے بے لیلا ترا

معانی:: قیس: مجنوں کا نام مراد عاشق خدا اور رسول اللہﷺ ۔ محفل: قوم ۔ تنگ: چھوٹا ۔ محدود ۔ محمل ہے بے لیلا ترا: مراد عشق کا دعویٰ تو ہے لیکن کوئی محبوب تیرے پیش نظر نہیں ۔
مطلب: تیری قوم میں اب قیس جیسے عاشق اور دیوانوں کا پیدا ہونا یوں ممکن نہیں رہا کہ تیرے پاس تو وہ جوہر آبدار بھی موجود نہیں رہا جو کبھی سرمایہ افتخار ہوتا تھا ۔ تیرے پیشِ نظر کوئی محبوب ہی نہیں ہے جس کا تو مجنون ہو ۔

 
اے دُرِ تابندہ اے پروردہَ آغوشِ موج
لذّتِ طوفاں سے ہے نا آشنا دریا ترا

معانی:: دُرِ تابندہ: چمکدار موتی ۔ پروردہَ آغوشِ موج: لہروں کی گود میں پالا ہوا ۔
مطلب: تو بے شک ایسے آبدار موتی کی مانند ہے جو تند و تیز موج کی آغوش میں پلا لیکن اس کا کیا جائے کہ جس دریا میں تو نے پرورش پائی ہے وہ طوفان سے نا آشنا ہے ۔ مراد یہ کہ تو اور تیری قوم بے حسی اور بے عملی کے سبب ناکارہ ہو چکی ہے تیری قوم میں دیکھا جائے تو وہ توانائی نہیں رہی جو انقلابوں کو جنم دیتی تھی ۔

 
اب نوا پیرا ہے کیا، گلشن ہوا برہم ترا
بے محل تیرا ترنّم، نغمہ بے موسم ترا

معانی:: نوا پیرا: نغمہ ریزی ۔ برہم: الٹ پلٹ ۔ ترنّم: اہل قوم کو شاعری سنانے کا عمل ۔ نغمہ: گیت، نوا ۔ بے موسم: بے موقع ۔
مطلب: اب اس نغمہ ریزی کا کیا فائدہ جب تیرا گلستاں برباد ہو کر رہ گیا ہے تیرے اشعار تو سچ پوچھیے بے وقت کی راگنی کی حیثیت رکھتے ہیں جو ملت کی بیداری میں قطعی مددگار ثابت نہیں ہو سکتے ۔

 
تھا جنھیں ذوقِ تماشا، وہ تو رخصت ہو گئے
لے کے اب تو وعدہَ دیدار عام آیا تو کیا

معانی:: ذوقِ تماشا: نظارہ کرنے کا شوق ۔ وہ تو رخصت ہو گئے: اشارہ ہے جنگ آزادی 1857 ء کی جنگِ آزادی میں شہید ہونے والے لوگوں کی طرف ۔ وعدہَ دیدارِ عام: ہر مسلمان سے محبوب کے دیدارِ عام کا وعدہ ۔ تو کیا: کیا فائدہ ۔
مطلب: اے شاعر ! ملت مسلمہ کے وہ باشعور افراد جو ساری صور ت حال کو سمجھنے کا ادراک رکھتے تھے وہ تو اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئے ۔ ان کے جانے کے بعد تو حالات کی بہتری کی نوید لے کر آیا ہے تو اس کا کیا فائدہ ۔

 
انجمن سے وہ پرانے شعلہ آشام اُٹھ گئے
ساقیا! محفل میں تو آتش بجام آیا تو کیا

معانی:: شعلہ آشام: عشق کی آگ بھڑکانے والی شراب پینے والے ۔ آتش بجام: عشق تیز کرنے والی شاعری
مطلب : اس عالم رنگ و بو میں جو لوگ انتہائی حقیقت پسند تھے ان کے رخصت ہونے کے بعد اگر تو اپنے اشعار میں مسائل کا کوئی حل پیش کرتا ہے تو اس سے کیا حاصل ہو گا ۔

 
آہ! جب گلشن کی جمیعت پریشاں ہو چکی
پھول کو بادِ بہاری کا پیام آیا تو کیا

معانی:: جمیعت: جماعت کی صورت ۔ بادِ بہاری: موسمِ بہار کی ہوا جو پھول کھلاتی ہے ۔
مطلب: اس لیے کہ جب گلستان ہی اجڑ گیا اور اس کا شیرازہ ہی منتشر ہو گیا تو اس لمحے بہار کی تازہ ہوا کے پیام کی نوید بے معنی سی بات ہے ۔

 
آخرِ شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑ پ
صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا

معانی:: آخرِ شب: رات کا آخری حصہ ۔ بسمل: زخمی ۔ صبح دَم: صبح کے وقت ۔ کوئی: مراد محبوب ۔ بالائے بام: چھت پر ۔
مطلب: اس لیے کہ وہ منظر تو کب کا نظروں سے غائب ہو چکا جب تیری قوم اپنے عروج کے آخری لمحات میں تھی ۔ وہ اضطراب اور تڑپ ناقابل فراموش ہے ۔ لہذا اس کے بعد کوئی بہتری کے امکانات پیدا بھی ہو جائیں تو ان سے کیا مل سکے گا ۔

 
بجھ گیا وہ شعلہ جو مقصودِ ہر پروانہ تھا
اب کوئی سودائیِ سوزِ تمام آیا تو کیا

معانی:: وہ شعلہ: مراد وہ جذبہ عشق جو پہلے مسلمانوں میں تھا ۔ سودائی: دیوانہ، بے حد چاہنے والا ۔ سوزِ تمام: عشق کے جذبوں کی پوری تپش، حرارت ۔
مطلب: ملت کے دلوں میں جدوجہد اور انقلاب کا جو شعلہ بھڑک رہا تھا وہ تو بجھ کر رہ گیا ۔ اس کے بعد اگر کوئی اس شعلے کو ہوا دینے آیا بھی تو یہ ایک بے معنی سا عمل ہو گا کہ اس قوم میں عمل اور احساس ذمہ داری کے جذبے مفقود ہو جائیں تو وہ مردہ بن کر رہ جاتی ہے ۔

 
پھول بے پروا ہیں ، تو گرمِ نوا ہو یا نہ ہو
کارواں بے حس ہے، آوازِ درا ہو یا نہ ہو

معانی:: پھول: مراد اہلِ ملت ۔ بے پروا: جنھیں کوئی دلچسپی نہیں ۔ گرمِ نوا: بذریعہ شاعری جذبہ عشق تیز کرنے میں مصروف ۔ بے حس: جسے اپنے نقصان کا احساس نہ ہو ۔ درا: قافلے کی گھنٹی ۔
مطلب: اے شاعر! اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ تو کتنے ہی نغمے بکھیر دے ملت کے افراد ان پر کان دھرنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں ۔ یہ قافلہ صبح جگانے والی گھنٹی کی آواز سے بھی لاپرواہ اور بے حس ہو چکا ہے ۔

 
شمعِ محفل ہو کے تو جب سوز سے خالی رہا
تیرے پروانے بھی اس لذّت سے بیگانے رہے

معانی:: شمعِ محفل: مراد ملت، قوم کا رہنما ۔ لذّت سے بیگانہ: کسی چیز کے لطف کا احساس نہ رکھنے والا ۔
مطلب: شمع کہتی ہے کہ اے شاعر! اگر ملت کو ایک بزم تصور کر لیا جائے تو تیری حیثیت اس بزم میں ایک شمع کی مانند ہو گی لیکن یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ شمع محفل قرار دیئے جانے کے باوجود بھی جب تجھ میں سوز اورتڑپ مفقود رہی تو ملت کے افراد جن کو پروانوں سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ان میں سوز اور تڑپ پیدا کس طرح ہو سکتی ہے ۔ یعنی جب تجھ میں ہی ملت کی بقا کے لئے جدوجہد اور قربانی کا جذبہ نہیں ہے تو ملت کے عام افراد سے کیا توقع کی جا سکتی ہے ۔

 
رشتہَ الفت میں جب ان کو پرو سکتا تھا تو
پھر پریشاں کیوں تری تسبیح کے دانے رہے

معانی:: رشتہَ الفت میں پرونا: باہمی محبت پیدا کرنا ۔ تسبیح کے دانے: مراد مسلمان، افرادِ قوم ۔
مطلب: جب تو یہ صلاحیت رکھتا تھا کہ ملت کے افراد کو رنگ و نسل کی تفریق کے بغیر تسبیح کے دانوں کی طرح یکجا اور متحد کر سکتا تھا تو پھر یہ بتا کہ یہ لوگ نفاق اور انتشار کا شکار کس لئے ہوئے ۔

 
شوق بے پروا گیا، فکرِ فلک پیما گیا
تیری محفل میں نہ دیوانے نہ فرزانے رہے

معانی:: فکرِ فلک پیما: بہت بلند شاعرانہ سوچ ۔ فرزانے: عقل مند ۔
مطلب: اب تو کیفیت یہ ہے کہ ملت کے افراد سے ماضی کی طرح مشکلات سے نبرد آزما ہونے اور بلندی فکر کی خصوصیات ناپید ہو گئیں اور اب ان پر عمل کرنے والا بھی کوئی نہیں رہا ۔

 
وہ جگر سوزی نہیں ، وہ شعلہ آشامی نہیں
فائدہ پھر کیا جو گردِ شمع پروانے رہے

معانی:: جگر سوزی: جذبہ عشق کی گرمی ۔ شعلہ آشامی: عشق کے جذبوں کی آگ تیز کرنے کا عمل ۔
مطلب: اب تو افراد ملت میں نہ مشکلات و شدائد کو برداشت کرنے کا حوصلہ ہے نا ہی جدوجہد کی تڑپ ، موجود بھی ہو تو اس سے کیا فائدہ حاصل ہو سکے گا ۔

 
خیر تو ساقی سہی لیکن پلائے گا کسے
اب نہ وہ مے کش رہے باقی، نہ میخانے رہے

معانی:: خیر: چلو مان لیا ۔ مے کش: شراب پینے والا ۔
مطلب: اگر تجھے ساقی یعنی عشق کی شراب پلانے والا بھی تصور کر لیا جائے تو شراب کسے پلائے گا جب کہ نہ پینے والے باقی رہے نہ شرابخانے ۔ مراد یہ ہے کہ جب افراد ملت بے عملی اور محرومی کو اپنے سر پر مسلط کر چکے ہوں تو اے شاعر تو کتنی ہی دلسوزی کے ساتھ ان کے لئے نغمات تخلیق کرے ان سے کوئی نتیجہ حاصل نہ ہو سکے گا ۔

 
رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اسے
کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے

معانی:: مینا: شراب کی صراحی ۔ پیمانے گردش میں رہنا: مراد علم و حکمت اور عشق و معرفت کا دور دورہ ہونا ۔
مطلب: جو قوم ماضی میں انتہائی عروج پر تھی آج وہ انتہائی سطح تک زوال کی شکار ہے ۔ اس صورت حال کا ادراک اگر کسی ایک آدھ فرد کو ہے بھی تو اس سے کیا فائدہ ۔ آج تو سارا منظر ہی تبدیل ہو چکا ہے جو کسی زمانے میں شان و شوکت اور عزت و وقار کا مظہر رہا تھا ۔

 
آج ہیں خاموش وہ دشتِ جنوں پرور جہاں
رقص میں لیلا رہی، لیلا کے دیوانے رہے

معانی:: دشتِ جنوں پرور: عشق کے جذبوں کو تیز کرنے والا صحرا، دینی علوم کے مدرسے اور خانقاہیں ۔ لیلیٰ کا رقص میں رہنا: دین کو پھیلانے کے لئے عملی اقدام کرنا ۔
مطلب: جو قوم ماضی میں انتہائی عروج پر تھی آج انتہائی سطح تک زوال کی شکار ہے ۔ جن کے اسلاف عشق کے جذبوں کو تیز کرنے والے صحرا کی مانند تھے اور جو دین اسلام کے سچے عاشق تھے آج اپنی بربادی پر خاموش نظر آتے ہیں ۔

 
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

معانی:: وائے ناکامی: افسوس ہے ۔ متاعِ کارواں : قافلے کی پونجی، دولت ۔ احساسِ زیاں : نقصان محسوس کرنے کی حالت ۔
مطلب: افسوس تو اس امر کا ہے کہ ملت تباہ و برباد ہو کر رہ گئی بلکہ اس سے زیادہ افسوس اس امر کا ہے کہ افراد کے دل سے اس بربادی اور تباہی کا احساس بھی ختم ہو گیا

 
جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ویرانے کبھی
شہر اُن کے مٹ گئے، آبادیاں بن ہو گئیں

معانی:: ہنگاموں : جدوجہد، عمل ۔ ویرانے: اجڑی جگہیں ۔ بن ہونا: اجڑ جانا ۔
مطلب: جن جوانمردوں نے اپنے جوش عمل اور کارکردگی سے اجاڑ جنگلوں کو بھی پر رونق بستیوں میں تبدیل کر دیا تھا اب ان کی زوال آمادگی کا یہ عالم ہے کہ ان جوانمردوں کے شہر اور آبادیاں مسمار ہو کر ویران جنگل کی شکل اختیار کر گئے ہیں ۔

 
سطوتِ توحید قائم جن نمازوں سے ہوئی
وہ نمازیں ہند میں نذرِ برہمن ہو گئیں

معانی:: سطوت: دبدبہ، شان ۔ توحید: خدا کو ایک ماننا ۔ جن نمازوں : پہلے مسلمانوں کی اسلام سے مکمل وابستگی ۔ نذرِ برہمن ہو گئیں : مسلمانوں نے ہندووَں کے طور طریقے اپنا لیے ۔
مطلب: ان جوانمردوں کی عبادت اور نمازوں سے حقیقت یہ ہے کہ بت پرستوں کے انبوہ میں واحدانیت کے تصور کو فروغ حاصل ہوا ۔ آج ان کی حالت یہ ہے کہ برہمن ان کے آقا بنے ہوئے ہیں اور ان کی نمازوں کا سلسلہ بھی انہیں آقاؤں کی بھینٹ چڑھ گیا ہے ۔

 
دہر میں عیشِ دوام آئیں کی پابندی سے ہے
موج کو آزادیاں سامانِ شیون ہو گئیں

معانی:: دہر: زمانہ ۔ عیشِ دوام: ہمیشہ ہمیشہ کی خوشی و مسرت ۔ آئیں کی پابندی: قانون پر سختی سے عمل ۔ سامانِ شیون: رونے پیٹنے کا سبب ۔
مطلب: امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں انہی اقوام کو عروج حاصل ہوا جنھوں نے اپنے آئین اور نظام کی پابندی کی ورنہ مادر پدر قسم کی آزادی سے تاسف اور رونے پیٹنے کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔

 
خود تجلّی کو تمنا جن کے نظاروں کی تھی
وہ نگاہیں نا امیدِ نورِ ایمن ہو گئیں

معانی:: تجلّی: جلوہ، دیدار ۔ نورِ ایمن: طور کی طرف اشارہ ہے جہاں حضرت موسیٰ کو خدائی نور کی جھلک دکھائی دی تھی ۔
مطلب: اے شاعر تجھے یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ جو حضرت موسیٰ کو کوہ طور پر نظر آیا تھا اور جو خود اپنے دیکھے جانے کا آرزو مند تھا وہ نا امیدی اور مایوسی کا شکار ہو چکا ہے کہ وہ بصیرت افروز نگاہیں ہی نہ رہیں جو اس نور کے جلوے کو دیکھنے کی اہلیت رکھتی تھیں ۔

 
اڑتی پھرتی تھیں ہزاروں بلبلیں گلزار میں
دل میں کیا آئی کہ پابندِ نشیمن ہو گئیں

معانی:: پابند: قید ۔ نشیمن: گھونسلا ۔
مطلب: وہ دور بھی تھا کہ ہزار ہا بلبل اس گلستاں میں محو پرواز رہتی تھیں ۔ اب نہ جانے ان کو کیا ہو گیا ہے کہ اپنے گھونسلوں میں چھپ کر بیٹھ گئیں ۔ مراد یہ ہے کہ ملت کی بے عملی نے ان کو بھی مایوسی کا شکار بنا دیا ہے ۔

 
وسعتِ گردوں میں تھی ان کی تڑپ نظارہ سوز
بجلیاں آسودہَ دامانِ خرمن ہو گئیں

معانی:: نظارہ سوز: نظارے کو جلانے والی ۔ آسودہ: آرام کرنے والی ۔ دامانِ خرمن: فصل، پیداوار کا پلو مراد فراغت میں ڈوبا ہوا ۔
مطلب: وہ بجلیاں جو آسمان پر چمکتی رہتی ہیں اور جن کے نظارے سے دل میں تڑپ پیدا ہوتی تھی اب وہ خرمن تک محدود ہو کر رہ گئیں یعنی ان میں حدت و نظارے سے دل میں تڑپ پیدا ہوتی تھی اب وہ کھیت تک محدود ہو کر رہ گئیں ۔

 
دیدہَ خونبار ہو منت کشِ گلزار کیوں
اشکِ پیہم سے نگاہیں گل بدامن ہو گئیں

معانی:: دیدہَ خونباز: خون رونے والی آنکھ، بہت غمگین ۔ منت کش: احسان اٹھانے والی ۔ اشکِ پیہم: مسلسل آنسو بہنے کی حالت ۔ گل بدامن: جس کی جھولی میں سرخ پھول ہوں ۔
مطلب: ایسے میں خون برسانے والی آنکھیں پھولوں کے لئے باغ کا احسان ہی کیوں لیں کہ انھوں نے تو اپنے مسلسل بہنے والے آنسووَں سے دامن کو ہی گلزار بنا دیا ہے ۔

 
شامِ غم لیکن خبر دیتی ہے صبحِ عید کی
ظلمتِ شب میں نظر آئی کرن امید کی

معانی:: شامِ غم: مراد غلامی کے دکھ بھرے حالات ۔ صبح عید: مراد اچھے دن ۔ ظلمتِ شب: رات کی تاریکی ۔
مطلب: اس ساری کیفیت کے باوجود یہ غم انگیز صورت حال مستقل حیثیت کی حامل نہیں ہے ۔ یہ شام غم تو اب مسرت و شادمانی کی صبح کی خبر دے رہی ہے اور تاریک شب میں بھی امید کی کرن نظر آنے لگی ہے ۔ ملت کے زوال کا دور ختم ہونے کو ہے ۔ اور آئندہ بہتر صورت حال کی توقع کی بھرپور امید ہے ۔

 
مژدہ اے پیمانہ بردارِ خمستانِ حجاز
بعد مدّت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے ہوش

معانی:: مُژدہ: خوش خبری، مبارک باد ۔ پیمانہ بردارِ خمستانِ حجاز: حجاز کا شراب خانہ، مراد اسلام سے محبت کرنے والا ۔ رند: سچا مسلمان ۔
مطلب: اے شہر حجاز کی شان میں نغمہ سرائی کرنے والے شاعر! تجھے خوش خبری ہو کہ ایک عرصے کے بعد تیرے چاہنے والے پھر سے ہوش میں آنے لگے ہیں ۔ یعنی ملت اسلامیہ گہری نیند سے ایک بار پھر بیدار ہونے لگی ہے ۔

 
نقدِ خودداری بہائے بادہَ اغیار تھی
پھر دُکاں تیری ہے لبریزِ صدائے ناوَ و نوش

معانی:: بہائے بادہَ اغیار: غیروں کی شراب، طور طریقوں کی قیمت ۔ لبریز صدائے ناوَونوش: جذبوں میں پھر تیزی آنے لگی ہے، پینے پلانے کی آوازیں ۔
مطلب: کافی عرصے سے اس قوم نے اپنی غیرت و خودداری کو غیروں کے ہاتھ بیچ رکھا مراد یہ ہے کہ ملت کے افراد اپنے عقیدے اور اصولوں کو خیرباد کہہ کر فرنگیوں اور عجمیوں کے عقائد کے ہم نوا ہو گئے تھے تاہم مقام شکر ہے کہ اب وہ پھر سے اپنے عقائد کی جانب لوٹ رہے ہیں ۔

 
ٹوٹنے کو ہے طلسمِ ماہ سیمایانِ ہند
پھر سلیمیٰ کی نظر دیتی ہے پیغامِ خروش

معانی:: سیمایانِ ہند: ہندوستان کے حسین مراد غیر اسلامی تصورات ۔ سلیمیٰ کی نظر: مشہور عرب حسینہ، مراد اسلامی اصول ۔ خروش: شورو غوغا، اسلام سے جذبہ محبت کی بیداری ۔
مطلب: اب ہندوستان کی چاند جیسی پیشانی رکھنے والی محبوباؤں کا جادو ٹوٹ رہا ہے اور پھر سلیمیٰ کا حسن جہاں سوز مسلمانوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ مسلمانوں پر ہندو تہذیب و ثقافت کے جو اثرات تھے ان کا طلسم ٹوٹ رہا ہے اور وہ خود اپنی تہذیب و ثقافت میں از سر نوکشش محسوس کر رہے ہیں ۔

 
پھر یہ غوغا ہے کہ لا ساقی شرابِ خانہ ساز
دل کے ہنگامے مَے مغرب نے کر ڈالے خموش

معانی:: غوغا: شور ، ہنگامہ ۔ شرابِ خانہ ساز: مراد اسلامی آداب اور تہذیب ۔ ہنگامے: جذبے ۔ مغرب: یورپ ۔
مطلب: ایک بار پھر سے شور بلند ہونے لگا ہے کہ غیروں کی تہذیب و ثقافت سے نجات حاصل کر کے اپنی ہی تہذیب و ثقافت کی جانب لوٹ آوَ ۔

 
نغمہ پیرا ہو، کہ یہ ہنگامِ خاموشی نہیں
ہے سحر کا آسماں خورشید سے مینا بدوش

معانی:: ہنگامہ: وقت ۔ سحر کا آسماں : صبح کا آسماں مراد اسلام ۔ خورشید: سورج ۔ مینا بدوش: کندھوں پر شراب کی صراحی لیے ہوئے مراد عمل اور جدوجہد کے لئے تیار ۔
مطلب: شمع ایک بار پھر شاعر کو مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہے کہ یہ خاموش رہنے کا وقت نہیں ۔ تیرے نغمات قوم کی بیداری کا سبب بن سکتے ہیں ۔ یہ وقت سحر ہے اور سورج طلوع ہو رہا ہے جو ملت کے لئے خوش آئندگی کی علامت ہے ۔

 
در غمِ دیگر بسوز و دیگراں را ہم بسوز
گفتمت روشن حدیثے ، گر توانی دار گوش

معانی:: تو دوسروں کے غم میں جل اور دوسروں کو بھی جلا ۔ میں نے تجھے روشن حدیث سنا دی ہے ہو سکے تو غور سے سن ۔
مطلب: یہ بڑی اہم بات کی جانب اشارہ ہے کہ دوسروں کے دکھ درد میں جلو اور دوسروں کو بھی سوز عشق میں مبتلا کرو یعنی متحد و متفق ہو کر ایک دوسرے کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھو ۔

 
کہہ گئے ہیں شاعری جزویست از پیغمبری
ہاں سنا دے محفلِ ملت کو پیغامِ سروش

معانی:: کہہ گئے ہیں : یعنی کسی کا قول ہے ۔ شاعری جزو یست از پیغمبری: بامقصد شاعری پیغمبری کا ایک حصہ ہے ۔ سروش: فرشتہ ۔
مطلب: ایک بڑے دانشور یہ نکتہ بیان کر گئے ہیں کہ اچھی شاعری عملاً پیغمبری کا جزو ہوتی ہے مراد یہ ہے کہ اچھی شاعری مسلمانوں کی صحیح سمت میں رہنمائی کرنے کی اہلیت رکھتی ہے ۔

 
آنکھ کو بیدار کر دے وعدہَ دیدار سے
زندہ کر دے دل کو سوزِ جوہرِ گفتار سے

معانی:: دل کو زندہ کرنا: پھر سے دلوں میں پہلے والے جذبے پیدا کرنا ۔ سوزِ جوہر گفتار: اعلیٰ مقصد کی حامل شاعری کی تاثیر ۔
مطلب: اے شاعر! ملت کو اپنی شاعری کے ذریعے بیدار کر دے اور مردہ دلوں کو اضطراب اور تڑپ سے نواز دے ۔

 
رہزنِ ہمت ہوا ذوقِ تن آسانی ترا
بحر تھا صحرا میں تو، گلشن میں مثلِ جو ہوا

معانی:: رہزن ِہمت: حوصلہ ختم کرنے والا ۔ ذوقِ تن آسانی: سستی اور غفلت کا شوق ۔ مثلِ جو: ندی کی طرح ۔
مطلب: اے شاعر! تو جو ملت کا نمائندہ ہے افسوس ہے کہ مشکلات کا سامنا نہ کرنے اور بے عملی کی عادت نے تیری ہمت اور حوصلے کو پست کر کے رکھ دیا ہے ۔ وہ وقت بھی تھا جب تو صحرا میں سمندر کی مانند تھا لیکن اب کیفیت یہ ہے کہ گلستان میں پہنچ کر ندی کا روپ دھار لیا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ مشکلات سے بچنے اور عملی جدوجہد سے گریز کرنے کی عادت اس لیے پڑی کہ صحرائے عرب اور افریقہ کے صحراؤں میں جس جی داری کے ساتھ تیرے عساکر دشمن کے مقابلے پر سینہ سپر ہو گئے لیکن جب بہت سے علاقے فتح کر کے تجھے آرام و سکون اور عیش و عشرت میسر آئے تو بے عملی کا اس قدر عادی ہوا کہ تیری شخصیت سمٹ کر رہ گئی ۔

 
اپنی اصلیت پہ قائم تھا تو جمیعت بھی تھی
چھوڑ کر گل کو پریشاں کاروانِ بو ہوا

معانی:: اصلیت پہ قائم : مراد اسلامی اصولوں پر قائم زندگی ۔ جمیعت: قوم کا متحد ہونا ۔
مطلب : تو جب تک اپنے حقیقی اصولوں اور قواعد پر قائم تھا تو ملت بھی متحد و متفق تھی لیکن ان اصولوں اور قواعد کو فراموش کر کے تیری قوم بھی منتشر ہو کر رہ گئی ۔

 
زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اسرارِ حیات
یہ کبھی گوہر، کبھی شبنم، کبھی آنسو ہوا

معانی:: اسرار : بھید ۔ گوہر: موتی ۔
مطلب: پانی کا ایک معمولی سا قطرہ دیکھا جائے تو ہمیں زندگی کے رازوں سے آگاہ کرتا ہے ۔ یہ قطرہ کبھی منجمد ہو کر موتی بن جاتا ہے ۔ کبھی آسمان کی بلندیوں سے شبنم کی صورت واپس زمین پر آتا ہے اور کبھی آنسو جیسی نایاب چیز بن کر آنکھ سے ٹپکتا ہے ۔

 
پھر کہیں سے اس کو پیدا کر، بڑی دولت ہے یہ
زندگی کیسی جو دل بیگانہَ پہلو ہوا

معانی:: دل بیگانہَ پہلو ہونا: عشق و عمل کے جذبوں سے دل کا خالی ہونا ۔
مطلب: دل ایک بڑی دولت ہے یہاں مراد حوصلے سے ہے کہ حوصلہ ہی باقی نہ رہے تو زندگی بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے یعنی دل سے عشق کی لذت و سرور ختم ہو جائے تو پھر زندگی موت سے بدتر ہے ۔

 
فرد، قائم ربطِ ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں ، اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

معانی:: فرد: شخص، آدمی ۔ قائم: برقرار ۔ ربطِ ملت: اپنی قوم سے وابستہ رہنے کی حالت ۔ کچھ نہیں : بیکار ہے ۔
مطلب: دنیا میں تیری عزت و آبرو اس وقت تک ہی تھی جب تک کہ تیری ملت متحد و متفق تھی اور انتشار سے دوچار نہ ہوئی تھی ۔ فرد کا وجود اسی وقت تک قائم ہے کہ وہ ملت سے مربوط ہو ۔ اسی طرح جیسے موج دریا میں تو اہم ہے دریا کے باہر بے معنی ہے ۔

 
پردہَ دل میں محبت کو ابھی مستور رکھ
یعنی اپنی مے کو رسوا صورتِ مینا نہ کر

معانی:: مستور: چھپا ہوا ۔
مطلب: اے شاعر ! تیری بہتری اسی میں ہے کہ اپنے عشق حقیقی کو دل کے پردے میں چھپا کر رکھ ۔ اس کو قطعاً ظاہر نہ کر ورنہ ذلت و رسوائی کے سوا اور کچھ نہ ملے گا اس کی مثال شراب کی صراحی ہے جو شراب کے اخراج میں قلقل کی صدا سے خود شراب کے وجود کی خبر دے دیتی ہے ۔ چنانچہ تو اس طرح کی روش اختیار نہ کر ۔

 
خیمہ زن ہو وادیَ سینا میں مانندِ کلیم
شعلہَ تحقیق کو غارت گرِ کاشانہ کر

معانی:: خیمہ زن ہو نا: ڈیرا ڈالنا ۔ وادیِ سینا: قدرت کے مظاہر ۔ شعلہَ تحقیق: حقیقت تک رسائی کی آگ ۔ غارت گرِ کاشانہ: قیاس پر مبنی خیالات کو ختم کرنے والا ۔
مطلب: اے شاعر تو اور تیری ملت جو ایک عرصے سے اپنے وجود کی جانب سے بے نیاز ہو چکے ہو کمر ہمت باندھ لو ۔ حضرت موسیٰ کی طرح کوہ طور کی وادی میں ڈیرے ڈال دے اور تحقیق کے شعلے کو بلند کر اور اپنے لئے صرف کر ۔ مراد یہ کہ دوسروں کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنی تہذیبی ، ملی اور معاشرتی اقدار کو فروغ دے ۔

 
شمع کو بھی ہو ذرا معلوم انجامِ ستم
صرفِ تعمیرِ سحر خاکسترِ پروانہ کر

معانی:: انجامِ ستم: ظلم کا نتیجہ ۔ صرفِ تعمیرِ سحر کر: مراد روشنی کی عمارت بنانے پر خرچ کر ۔ خاکسترِ پروانہ: پتنگے کی راکھ ۔
مطلب: بے شک میری مانند شمع رات بھر جلتی رہتی ہے اور اس کے شعلے کے سبب لاتعداد پروانے جل کر خاک ہو جاتے ہیں تا ہم شمع سے اس ظلم و ستم کے انتقام لینے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ جو پروانے جل چکے ان کی خاک سے نئی صبح وجود میں لائی جائے ۔ ظاہر ہے کہ صبح کی روشنی نمودار ہوتے ہی شمع کی زندگی بھی ختم ہو جاتی ہے یعنی اس کا وجود غیر ضروری ہو جاتا ہے اور اس کو بجھا دیا جاتا ہے ۔

 
تو اگر خوددار ہے منت کشِ ساقی نہ ہو
عینِ دریا میں حباب آسا نگوں پیمانہ کر

معانی:: منتِ کش: احسان مند ۔ عین: ٹھیک ۔ حباب: آسا، بلبلے کی طرح ۔ نگوں : الٹا ۔
مطلب: اے شاعر اگر تجھ میں خودداری اور غیرتمندی ہے تو کسی کا احسان نہ لے اور ایسے زندگی گزار جیسے بلبلہ پانی میں سرنگون رہتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ بلبلہ پانی کی سطح پر موجود رہنے کے باوجود خود کو الٹے پیالے کی طرح رکھتا ہے اور دریا سے کسی قسم کی خیرات نہیں لیتا ۔

 
کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہیں
ہے جنوں تیرا نیا، پیدا نیا ویرانہ کر

معانی:: کیفیت: مزہ ۔ پرانے کوہ و صحرا: جو پہاڑ، جنگل وغیرہ کبھی فتح کئے گئے تھے ۔
مطلب: یہ جو قدیم کوہ و صحرا ہیں ان میں اب کوئی کشش باقی نہیں رہی اب تو ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی تگ و دو کے لئے نیا میدان تلاش کر ۔ اس لیے کہ تیرا عزم اور جنون بھی نئے ہیں ۔

 
خاک میں تجھ کو مقدّر نے ملایا ہے اگر
تو عصا اُفتاد سے پیدا مثالِ دانہ کر

معانی:: عصا: سہارے کی لاٹھی ۔ اُفتاد: گرنے کی حالت ۔ مثالِ دانہ: بیج کی طرح ۔
مطلب: اگر تجھے حالات نے انتہائی پستی سے ہم کنار کر دیا ہے تو اس کی پروا نہ کر ۔ تو بھی حوصلہ کر اور عملی جدوجہد اسی طرح جاری رکھ ۔ اس جدوجہد کا نتیجہ اس کسان کی کوشش کے مطابق برآمد ہو سکتا ہے جو زمین میں ہل چلا کر وہاں بیج ڈال دیتا ہے ۔ یہ بیج بظاہر مٹی میں مل جاتا ہے لیکن پھر مٹی سے برآمد ہو کر تنے کی شکل میں قائم و استوار ہو جاتا ہے ۔ مراد یہ کہ جدوجہد اور محنت کا پھل ضرور ملتا ہے ۔

 
ہاں ! اسی شاخِ کہن پر پھر بنا لے آشیاں
اہلِ گلشن کو شہیدِ نغمہَ مستانہ کر

معانی:: شاخِ کہن: پرانی ٹہنی ۔ اہل گلشن: مراد اہل وطن ۔ شہید: مراد متاثر ۔ نغمہَ مستانہ: جذبوں سے پُر شاعری ۔
مطلب: اے شاعر! پھر سے اپنے شاندار اور اصول پرست ماضی کی طرف لوٹ آ ۔ کہ اسی حوالے سے تو جو نغمے وضع کرے گا وہی ملت اسلامیہ کے لئے مسرت و شادمانی کا سبب بن جائیں گے ۔

 
اس چمن میں پیروِ بلبل ہو یا تلمیذ گل
یا سراپا نالہ بن جا، یا نوا پیدا نہ کر

معانی:: پیرو: پیروی کرنے ، پیچھے چلنے والا ۔ تلمیذ: شاگرد ۔ سراپا: مکمل طور پر ۔
مطلب: اس چمن میں یا تو نغموں میں مست رہنے والے بلبل کی پیروی کر یا کسی ایسی درویش کی شاگردی اختیار کر لے جس کا گریبان عشق سے چاک ہو ۔ اس دنیا میں زندہ رہنے کے دو ہی طریقے اور اصول ہیں کہ یا تو مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے یا پھر خاموشی اختیار کر لی جائے ۔

 
کیوں چمن میں بے صدا مثلِ رمِ شبنم ہے تو
لب کشا ہو جا سرودِ بربطِ عالم ہے تو

معانی:: بے صدا: جس کی آواز نہ ہو ۔ رمِ شبنم: اوس کے قطروں کا آواز کے بغیر گرنا ۔ سرودِ بربطِ عالم: دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اسلام کی سریلی آواز ۔
مطلب: سو اے شاعر! تو اس دنیا میں شبنم کی طرح خاموش کیوں ہے تیرے لئے لازم ہے کہ اپنے لب کھول کہ تو کائنات کے ساز کا ایک نغمہ ہے ۔

 
آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا
دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تو

معانی:: دہقاں : کسان ۔ باراں : بارش ۔ حاصل: پیداوار ۔
مطلب: شمع کہتی ہے کہ اے شاعر! تیرا وجود تو اس کسان کے مانند ہے جو عملی سطح پر بیج بھی، کھیتی بھی، بارش بھی اور اس سے حاصل ہونے والی فصل کی طرح ہے ۔

 
آہ! کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تو، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو، منزل بھی تو

معانی:: جستجو: تلاش ۔ آوارہ رکھنا: بے چینی کی حالت میں پھرنا ۔ رہرو: راہ چلنے والا مسافر ۔ رہبر: راستے پر لے جانے والا ۔
مطلب : نہ جا نے اپنے مقصد کے حصول کی خاطر تو کس چیز کے لئے سرگرداں رہتا ہے ۔ جب کہ تو کسی کا محتاج نہیں ہے ۔ راستے سے لے کر منزل تک سب تیرے وجود کی خبر دیتے ہے ۔

 
کانپتا ہے دل ترا اندیشہَ طوفاں سے کیا
ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تو

معانی:: اندیشہ: ڈر ۔ ناخدا: ملاح ۔
مطلب: اسی طرح طوفان کے خوف سے تیرا دل نہ جانے کیوں لرزتا ہے جب کہ یہاں ملاح بھی تو خود ہی ہے سمندر بھی، کشتی بھی اور سمندر کا ساحل بھی بالاخر تو ہی ٹھہرتا ہے ۔ تیرے وجود کے بغیر یہ عناصر بے معنی ہیں ۔

 
دیکھ آ کر کوچہَ چاکِ گریباں میں کبھی
قیس تو، لیلا بھی تو، صحرا بھی تو، محمل بھی تو

معانی:: کوچہ: گلی ۔ چاکِ گریباں : گریبان کا پھٹا ہوا حصہ ۔ قیس: مجنوں ، عاشق ۔ لیلیٰ: مجنوں کی محبوبہ ۔
مطلب: اے شاعر! کبھی عشاق کے اجتماع میں بھی پہنچ کر دیکھ وہاں بھی تجھے پتہ چلے گا کہ قیس اور لیلیٰ بھی تو ہے وہ صحرا جہاں قیس سرگرداں پھرتا تھا وہ بھی سمٹ کر تیرے وجود کا حصہ بن گیا ہے ۔ اسی طرح وہ کجاوہ جس میں لیلیٰ سوار ہوتی تھی وہ بھی تو ہی ہے ۔

 
وائے نادانی، کہ تو محتاجِ ساقی ہو گیا
مے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو

معانی:: وائے نادانی: افسوس ہے اس ناسمجھ پر ۔
مطلب: امر واقعہ یہ ہے کہ تو نے اپنی سادگی کے سبب ساقی کو سب کچھ تصور کر لیا حالانکہ حقیقت محتلف ہے ۔ شراب، بوتل، پیمانہ، ساقی اور جس محفل میں دورِ جام چل رہا ہے وہ سب تو ہی تو ہے ۔

 
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاکِ غیر اللہ کو
خوف باطل کیا کہ ہے غارت گرِ باطل بھی تو

معانی:: خاشاکِ غیر اللہ: یعنی اللہ تعالیٰ کے مخالفین ۔ باطل: کفر ۔ غارت گر: تباہ کرنے والا ۔
مطلب: تجھ پر لازم ہے کہ مخالفین خدا کو شعلہ بن کر خاکستر کر دے ۔ تجھے باطل کا خوف نہیں ہونا چاہیے اس لئے کہ باطل کو برباد کرنے والا بھی تو ہی ہے ۔

 
بے خبر تو جوہرِ آئینہَ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے

معانی:: جوہر آئینہَ ایام: زمانے کے آئینے کی چمک دمک ۔ خدا کا آخری پیغام: مراداللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن کریم پر ایمان رکھنے والا ۔
مطلب: نہ جانے تو اس قدر بے خبر کیوں ہے جب کہ تو ہی ہے جو زمانے کے آئینے کے جوہر کے علاوہ مسلمان کی حیثیت سے خدا کا آخری پیغام بھی ہے ۔

 
اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو
قطرہ ہے لیکن مثالِ بحرِ بے پایاں بھی ہے

معانی:: اصلیت: حقیقت ۔ بحر بے پایاں : بیحد وسیع سمندر ۔
مطلب: اے شاعر تجھ پر لازم ہے کہ اپنی اصل حقیقت سے شناسائی حاصل کر لے تو تو اس قدر غفلت شعار ہے کہ یہ بھی نہیں جانتا کہ معمولی سا قطرہ ہونے کے باوجود اپنی وسعت میں بحر بیکراں کی مانند ہے ۔

 
کیوں گرفتارِ طلسمِ ہیچ مقداری ہے تو
دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکتِ طوفاں بھی ہے

معانی:: گرفتار: پکڑا ہوا، قیدی ۔ طلسمِ ہیچ مقداری: خود کو بے حیثیت سمجھنے کا جادو ۔ پوشیدہ: چھپا ہوا ۔ شوکت: دبدبہ ۔
مطلب: نہ جانے تو اپنی کم مائیگی کے احساس میں کیوں مبتلا ہے ۔ جب کہ تیرے وجود میں نہ جانے کتنے طوفانوں کا جاہ و جلال پوشیدہ ہے ۔

 
سینہ ہے تیرا ا میں اس کے پیام ناز کا
جو نظامِ دہر میں پیدا بھی ہے، پنہاں بھی ہے

معانی:: ا میں : کسی کی امانت رکھنے والا ۔ پیامِ ناز: خوبصورت پیغام یعنی اسلام ۔ اس: مرا د خدا ۔ نظامِ دہر: زمانے کا نظم و نسق، بندوبست ۔ پیدا: ظاہر ۔ پنہاں : چھپا ہوا ۔
مطلب: تیرا سینہ تو اس معبود حقیقی کے راز کا دفینہ ہے جو اس کائنات میں ظاہر بھی ہے اور پوشیدہ بھی ۔ یعنی یہاں جو مظاہر فطرت ہیں وہ چشم بینا کے لئے خالق حقیقی کے وجود کا پتہ دیتے ہیں جب کہ عملاً اس کی ذات پوشیدہ ہے ۔

 
ہفت کشود جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ
تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ سامان بھی ہے

معانی:: ہفت کشود: مراد ساری کائنات ۔ تسخیر ہونا: قابو میں آنا، فرماں بردار بننا ۔ بے تیغ و تفنگ: تلوار اور بندوق کے بغیر ۔ وہ سامان: یعنی اسلام اور حضور اکرم سے محبت کا جذبہ ۔
مطلب: اے شاعر تو اس ملت کا فرزند ہے جس نے اپنی قوت ایمان سے بے سروسامانی کے عالم میں بھی ہزاروں فتوحات حاصل کیں اور عظیم الشان سلطنتون کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا ۔

 
اب تلک شاہد ہے جس پر کوہِ فاراں کا سکوت
اے تغافل پیشہ، تجھ کو یاد وہ پیماں بھی ہے 

معانی:: کوہ فاراں : مکہ معظمہ کی پہاڑی جہاں سے اسلام کا آغاز ہوا ۔ شاہد: گواہ ۔ سکوت: خاموشی ۔ تغافل پیشہ: غفلت اختیار کرنے والا ۔ وہ پیماں : اس وعدے کی طرف اشارہ ہے جو حضور اکرم کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے مسلمان اشاعتِ اسلام کے لئے کرتے تھے ۔
مطلب: لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ تو نے آنحضرت سے کیا ہوا وعدہ فراموش کر دیا ۔ اس وعدے کی شہادت کوہ فاراں کی خامشی آج بھی فراہم کر رہی ہے ۔

 
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی ہے

معانی:: ناداں : ناسمجھ، کم عقل ۔ قناعت کرنا: تھوڑے پر بھی راضی ہو جانا ۔ تنگیِ داماں : جھولی کا چھوٹا ہونا مراد اسلام کی تھوڑی خدمت ۔
مطلب: تو نے تو انتہائی نادانی اور سادگی کا ثبوت دیا ہے کہ محض چھوٹی چھوٹی عنایات پر ہی قناعت کر کے انہیں سب کچھ سمجھ لیا ہے حالانکہ ذرا صبر کرتا تو تیرے اور ملت کے مسائل باسانی حل ہو سکتے تھے ۔

 
دل کی کیفیت ہے پیدا پردہَ تقریر میں
کسوتِ مینا میں مے مستور بھی، عریاں بھی ہے

معانی:: پیدا: ظاہر ۔ پردہَ تقریر: گفتگو کے اندر ۔ کسوت: غلاف ۔ مینا: شراب کی صراحی ۔ مستور: چھپی ہوئی ۔ عریاں : ظاہر ۔
مطلب: دل میں جو کیفیات پوشیدہ ہوتی ہیں وہ تو اشعار میں نمایاں ہو جاتی ہیں ۔ یہ تو اہل ذوق پر منحصر ہے کہ وہ ان اشعار تک کس حد تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں ۔ اور ان کے مفاہیم کا کس حد تک ادراک کرتے ہیں ۔

 
پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے
اور میری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے

معانی:: آتش نوائی: دلوں میں جذبوں کی گرمی پیدا کرنے والی شاعری ۔ زندگانی کا ساماں : ایسی بات جس پر زندگی کا دارومدار ہے ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال خود اپنی ذات کے حوالے سے کہتے ہیں کہ میں ایک آتش نوا شاعر ہوں اور اسی آتش نوائی نے مجھے جلا کر خاک کر دیا ہے ۔ لیکن کیا کیا جائے کہ میری زندگی کا ماحاصل اور مقصد یہی آتش نوائی ہے ۔

 
راز اس آتش نوائی کا مرے سینے میں دیکھ
جلوہَ تقدیر میرے دل کے آئینے میں دیکھ

معانی:: جلوہَ تقدیر: تقدیر کا سامنے ہونا ۔
مطلب: چنانچہ اس آتش نوائی کا جو راز ہے وہ میرے سینے میں ہی دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس آگ نے میرے دل کو ایسے آئینے میں تبدیل کر دیا ہے جس میں مستقبل میں پیش آنے والے مناظر کو باسانی دیکھا جا سکتا ہے ۔

 
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی

معانی:: سحر: صبح مراد آزادی اور اسلام کا روشن مستقبل ۔ آئینہ پوش: چمکنے والا ۔ ظلمت: اندھیرا، غلامی ۔ سیماب پا: دور ہو جانے والی ۔
مطلب: اقبال بالاخر امید اور رجائیت کے منظر نامے میں مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ملت اسلامیہ جن مصائب سے دوچار رہ چکی ہے اب وقت آ گیا ہے کہ یہ مصائب ختم ہو کر رہ جائیں گے اس لیے کہ ظلمت شب کا خاتمہ ہو رہا ہے ۔ او ر نورِ سحر نے زمین تو کیا آسمان کا احاطہ بھی کر لیا ہے ۔

 
اس قدر ہو گی ترنم آفریں بادِ بہار
نکہتِ خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی

معانی:: ترنم آفریں : نغمے کا سا کیف رکھنے والی ۔ نکہتِ خوابیدہ: سوئی ہوئی خوشبو یعنی ابھی کلی میں ہے ۔ غنچے کی نوا: کلی کھلنے کی آواز ۔
مطلب: اب وہ دور آنے والا ہے کہ بہار کی ٹھنڈی ہوا وہ نغمے پیدا کرے گی کہ کلیوں اور غنچوں میں سوئی ہوئی خوشبو بھی نغموں کی صورت میں بیدار ہو گی ۔ یعنی ملت اسلامیہ کے تغافل شعار اور خوابیدہ افراد بیدار ہو کر سرگرم عمل ہو جائیں گے اور اپنی کھوئی ہوئی عظمت ایک بار پھر حاصل کر لیں گے ۔

 
آ ملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
بزم گل کی ہم نفس بادِ صبا ہو جائے گی

معانی:: سینہ چاکانِ چمن: یعنی پھول، مراد اہل اسلام ۔ بزم گل: مراد اسلام کے عاشقوں کی محفل ۔ ہم نفس: ایک ساتھ سانس لینے والی، ساتھی ۔
مطلب: ملت کے مختلف فرقوں کے مابین نفاق و انتشار کی جو فضا موجود ہے وہ ختم ہو کر رہ جائے گی اور یہ لوگ ہر نوع کا بغض و کینہ فراموش کر کے ایک دوسرے سے ہم آغوش ہو جائیں گے ۔

 
شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز
اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہو جائے گی

معانی:: شبنم افشانی: دلوں پر اثر کرنے والی شاعری ۔ سوزو ساز: باہمی عشق و محبت کے پر جوش جذبے ۔ اس چمن: مراد وطن ۔ ہر کلی: ہر فرد، شخص ۔ دردآشنا: عشق کے جذبوں سے واقف ۔
مطلب: میری شاعری ان لوگوں میں زندہ رہنے کا احساس پیدا کرے گی اور تمام مسلمان اس کیفیت سے آگاہ ہو جائیں گے جو میرے سینے اور اشعار میں موجود ہے ۔

 
دیکھ لو گے سطوتِ رفتارِ دریا کا مآل
موجِ مضطر ہی اسے زنجیر پا ہو جائے گی

معانی:: سطوتِ رفتاردریا: کفر و باطل کی قوتوں کا دبدبہ ۔ مآل: انجام ، اخیر ۔ موجِ مضطر: بے چین لہر، مرا د اسلام دشمنوں کے فتنے ۔ زنجیرِ پا: مصیبت کا باعث ۔
مطلب: مغربی تہذیب کے طوفان نے جس طرح ہمیں پستی کے آخری مراحل تک پہنچا دیا ہے اب یہ طوفان بالاخر خود ہی مغربی تہذیب کو لے ڈوبے گا ۔ اسلام دشمن طاقتیں اب خود اپنے ظلم و ستم کی بنا پر کف افسوس ملیں گی اور نالہ و فریاد پر مجبور ہو جائیں گی ۔

 
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی

معانی:: پیغامِ سجود: مراد خدا کے حضور سربسجدہ ہونے کا پیغام، توحید کی طرف توجہ ۔ خاکِ حرم: کعبہ کی سرزمین ۔
مطلب: اس لیے کہ وہ وقت آ گیا ہے جب ملت اسلامیہ اپنے زندہ عقائد کی طرف لوٹ آئے گی اور اس کی پیشانیاں خانہ کعبہ کی جانب جھک جائیں گی ۔ مراد یہ ہے کہ تمام مسلمان حضور سرورکائنات کی تعلیمات پر پھر سے عمل کر کے دنیا و آخرت میں سرخرو ہو سکیں گے ۔

 
نالہَ صیّاد سے ہوں گے نوا ساماں طیور
خونِ گل چیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائے گی

معانی:: نوا ساماں : چہچہانے والے، خوش ہونے والے ۔ طیور: جمع طائر، پرندے یعنی مسلمان ۔ گل چیں : پھول توڑنے والا، ظالم دشمن ۔ رنگیں قبا: سرخ لباس، خوشی کی علامت ہے ۔
مطلب: یہ صورت حال مسلمانوں کے لیے یقیناً خوش آئند ہو گی ۔ میری عشق سے بھرپور شاعری سے مسلمان طائروں کی طرح ہر طرف چہچہا رہے ہوں گے ۔ پھول توڑنے والے کے خونیں جگر سے کلیوں کا رنگ بھی سرخ تر ہو جائےگا ۔

 
آنکھ جو دیکھتی ہے ، لب پہ آ سکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

معانی:: محو حیرت: حیرانی میں ڈوبا ہوا ۔ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی ۔ مراد بہت بڑا انقلاب آ جائے گا ۔
مطلب: امر واقعہ یہ ہے کہ میں اتنے بڑے انقلاب کا منظر دیکھ رہا ہوں جس پر مجھے خود بھی حیرت ہے اور اس امر کا اظہار فی الحال میرے لئے ممکن نہیں کہ اس انقلاب کے سبب دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی ۔ یہ آنے والا وقت ہی بتا سکے گا ۔

 
شب گریزاں ہو گی آخر جلوہَ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہَ توحید سے

معانی:: شب گریزاں ہوگی: کفر کی تاریکیاں دور ہو جائیں گی ۔ جلوہَ خورشید: اسلام کی روشنی ۔ چمن: ملتِ اسلام ۔ معمور: بھرا ہوا ۔ نغمہَ توحید: خدا کی وحدت کا ترانہ ۔
مطلب: طلوع خورشید کے ساتھ ظلمتِ شب رخصت ہو جائے گی اور ہر طرف نغمہ توحید سنائی دے گا ۔ یعنی ملت اسلامیہ کو ایک بار پھر عروج حاصل ہو گا ۔