پھول
تجھے کیوں فکر ہے اے گل! دل صد چاکِ بلبل کی تو اپنے پیرہن کے چاک تو پہلے رفو کر لے
معانی: دلِ صد چاک: سیکڑوں ، بہت سے سوراخوں والا یا زخمی دل ۔ رفو کرنا: ٹانکا لگانا ۔
مطلب: اقبال زیر تشریح نظم میں پھول سے مکالمہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے پھول ! بلبل کا دل اگر کسی کے فراق میں ریزہ ریزہ ہوتا ہے تو تجھے اس کی اتنی فکر کیوں ہے کہ تیرے لبادے میں جو چاک ہیں پہلے ان کو تو رفو کرنے کی فکر کر ۔ مراد یہ کہ دوسروں سے ہمدردی جتانے سے پہلے اپنے بریدہ دامن کا جائزہ بھی تو لینا چاہیئے ۔
تمنا آبرو کی ہو اگر گلزارِ ہستی میں تو کانٹوں میں الجھ کر زندگی کرنے کی خو کر لے
معانی: گلزار ہستی: وجود کا باغ، دنیا ۔ کانٹوں میں الجھنا: مراد مشکلات کا مقابلہ کرنا ۔ خُو: عادت ۔ زندگی کرنا: زندگی گزارنا ۔
مطلب: اگر اس گلزار ہستی میں آبرو اور عزت و وقار کی خواہش ہو تو اس کے لیے لازم یہ ہے کہ کانٹوں کے مابین زندہ رہنے کی عادت بھی اختیار کر لی جائے ۔ مراد یہ ہے کہ زندگی تو بے پناہ مشکلات سے عبارت ہے اس کو باوقار طریقے سے گزارنے کے لیے یہ امر لازم ہے کہ مشکلات سے عہد بر آ ہونے کی عادت ڈال لی جائے ۔ یہ کامیابی اور کامرانی کا واحد راستہ ہے ۔
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے، پا بہ گل بھی ہے انھی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے
معانی: صنوبر: سرو کی ایک قسم، یہ درخت بہار اور خزاں میں آزادی کی نوید ہے ۔ پا بہ گِل: جس کے پاؤں ، جڑیں مٹی میں دھنسے ہوں ۔
مطلب: صنوبر کا درخت ہر نوع کے پھل سے بے نیاز ہے ۔ اسی لیے اس درخت کو آزاد تصور کیا جاتاہے ۔ اس آزادی کے باوجود پابند بھی ہے کہ اس کی جڑیں زمین میں پیوست ہیں تو بھی صنوبر کی طرح سے آزادی حاصل کر لے کہ وہ آزاد بھی ہے اور ایک حد تک پابند بھی ہے ۔ مراد یہ ہے کہ مادر پدر قسم کی آزادی تو کسی مرحلے پر بھی مفید نہیں ہو سکتی ۔
تنک بخشی کو استغنا سے پیغام خجالت دے نہ رہ منت کشِ شبنم، نگوں جام و سبو کر لے
معانی: تنک بخشی: تھوڑا یا ضرورت سے کم دینے کی کیفیت ۔ استغنا: بے نیازی، بے پروائی ۔ خجالت: شرمندگی ۔ منت کش: احسان اٹھانے والا ۔ نگوں : الٹا ۔ سبو: پیالہ ۔
مطلب: اگر کوئی شخص تجھے برائے نام فیاضی سے ممنون احسان کرنا چاہے تو تیری انا کا تقاضا یہ ہے کہ ایسی فیاضی کو قبول نہ کرے ۔ اگر تیرے پیمانے میں کوئی شراب کے محض چند قطرے ڈالنا چاہے تو ان کو قبول کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنا پیمانہ الٹا کر رکھ دے یعنی شراب کے چند قطروں کو قبول کرنے سے بہتر یہ مناسب ہے کہ پیمانہ خالی ہی رہے ۔
نہیں یہ شانِ خودداری، چمن سے توڑ کر تجھ کو کوئی دستار میں رکھ لے، کوئی زیبِ گُلو کر لے
معانی: خودداری: غیرت، دوسروں کا احسان نہ اٹھانے کا عمل ۔ دستار: پگڑی ۔ زیب گلو کرنا: گلے کا ہار بنا لینا ۔
مطلب: یہاں اقبال پھول سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ یہ شانِ خودداری تو نہیں کہ باغ میں جا کر کوئی تجھ کو شاخ سے توڑ لے اور پھر کوئی اپنی پگڑی میں لگا لے تو کوئی ہار میں پرو کر گلے کی زینت بنا لے ۔
چمن میں غنچہَ گل سے یہ کہہ کر اڑ گئی شبنم مذاق جورِ گل چیں ہو، تو پیدا رنگ و بو کر لے
معانی: غنچہَ گل: پھول کی کلی ۔ مذاق: ذوق و شوق ۔ جورِ گل چیں : پھول توڑنے والے کا ظلم ۔ رنگ و بو: رنگ اور خوشبو ۔
مطلب: شبنم اس راز کو غنچہ گل پر منکشف کر کے اڑ گئی کہ اگر تجھے پھول توڑنے والے کے ظلم برداشت کرنے کا حوصلہ ہے تو اس کے لیے اپنے دامن میں رنگ و بو پیدا کر لے ۔ مراد یہ کہ گلچیں تو محض پھول کو اسی وقت توڑنے کا خواہشمند ہوتا ہے جب وہ اس میں رنگ و بو محسوس کر لیتا ہے ۔
اگر منظور ہو تجھ کو خزاں نا آشنا رہنا جہاں ِ رنگ و بو سے پہلے قطعِ آرزو کر لے
معانی : خزاں نا آشنا: جس پر خزاں نہ آئے، جو کبھی نہ مرجھائے ۔ جہانِ رنگ و بو: یہ مادی دنیا، کائنات ۔ قطعِ آرزو: خواہش ختم کر لینا
مطلب: اے پھول اگر تو چاہتا ہے کہ تجھے کبھی خزاں سے واسطہ نہ پڑے تو پھر رنگ و بو کے حصول سے اجتناب کر بلکہ اس اجتناب سے قبل رنگ و بو کے حصول کی خواہش ترک کر دے ۔
اسی میں دیکھ مضمر ہے کمالِ زندگی تیرا جو تجھ کو زینتِ دامن کوئی آئینہ رُو کر لے
معانی: مضمر: چھپا ہوا ۔ کمال: ترقی، خوبی ۔ زینت دامن: پلو کی سجاوٹ، گلے کا ہار ۔ آئینہ رُو: مراد حسین عورت ۔
مطلب: ساری صورتحال کے برعکس اے پھول! تیری زندگی کا کمال اسی حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ تجکو کوئی خوبصورت چہرہ اپنے دامن کی زینت بنا لے ۔