رباعی (31)
خرد واقف نہیں ہے نیک و بد سے بڑھی جاتی ہے ظالم اپنی حد سے
خدا جانے مجھے کیا ہو گیا ہے خرد بیزار دل سے دل خرد سے
معانی: خرد: عقل ۔ نیک و بد: نیکی برائی ۔ بیزار: تنگ آنا ۔
مطلب: عقل نہ جانے کیوں اپنی حدود سے آگے نکل جاتی ہے جب کہ بقول اقبال اس میں تو نیک و بد کی تمیز بھی نہیں ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ اس رباعی میں اقبال کسی ذہنی کشمکش میں مبتلا ہیں ۔ اس کا اندازہ اس شعر سے ہوتا ہے جس میں کہتے ہیں کہ نہ معلوم میں کس صورت حال میں گم ہو کر رہ گیا ہوں کہ میری عقل، دل سے بیزار ہے اور دل عقل سے بیزار لگتا ہے ۔
رباعی (32)
خدائی اہتمامِ خشک و تر ہے خداوندا! خدائی دردِ سر ہے
ولیکن بندگی استغفر اللہ یہ دردِ سر نہیں ، دردِ جگر ہے
معانی: خدائی: مخلوقِ خدا ۔ اہتمام: انتظام ۔ خشک و تر: خشکی زمین سمندر اور دوسرے پانی کے مقام ۔ دردِ سر: سر درد ۔ بندگی: غلامی ۔ استغفراللہ: اللہ مجھے معاف کرے ۔
مطلب: اے مالک دو جہاں ! بے شک یہ حقیقت اپنی جگہ درست سہی کہ پوری کائنات میں خشک و تر کا اہتمام تیرے لیے درد سر کی حیثیت رکھتا ہو گا لیکن میں جو تیرا حقیر بندہ ہوں اس کے لیے بندگی کی جو ذمے داریاں ہیں ان کو بروئے کار لانا تو درد جگر سے کم نہیں جو درد سر سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے ۔
رباعی (33)
یہی آدم ہے سلطاں بحر و بر کا کہوں کیا ماجرا اس بے بصر کا
نہ خودبیں ، نے خدابیں ، نے جہاں بیں یہی شہکار ہے تیرے ہنر کا
معانی: یہی آدم: مراد اولادِ آدم ۔ سلطاں : حکمران ۔ بحر و بر کا: زمین اور پانی یعنی دنیا ۔ ماجرا: قصہ بیان کرنا ۔ بے بصر: نابینا، اندھا ۔ خودبیں : خود کو دیکھنا ۔ شہ کار: سب سے بڑا ہنر کا نمونہ یعنی آدمی ۔
مطلب: عشق الہٰی کی یہ منزل جب انسان اپنے رب کی معرفت حاصل کر لیتا ہے ہر کسی کے مقدر میں نہیں ہوتی ۔ اقبال کے بیشتر عارفانہ کلام بالخصوص اس رباعی کے متن سے اس امر کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ عشق الہٰی کی اس منزل تک رسائی حاصل کر چکے تھے ۔ اس رباعی میں وہ جس بے تکلفانہ انداز میں اپنے پالنے والے سے مخاطب ہیں دیکھا جائے تو یہی بے تکلفی ایک لطیف طنز کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔ چنانچہ وہ مالک حقیقی سے استفسار کرتے ہیں کہ انسان کو تو نے خشکی اور تری کا حکمران بنا دیا ہے ۔ کیا یہی تیرے تخلیقی ہنر کا شہ کار ہے کہ اگر اس حقیقت کا تیرے روبرو انکشاف کروں تو بس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ اس کی بے بصیرتی کا یہ عالم ہے کہ نہ اسے اپنی حقیقت کا کچھ علم ہے نہ تیری معرفت کا ادراک ہے اور نا ہی وہ کائنات کے سربستہ رازوں سے آگاہ ہے ۔ اس صورت حال میں اس کو تو نے جو مرتبہ بخشا ہے اس پر حیرت کے سوا اور کس جذبے کا اظہار کیا جا سکتا ہے ۔
رباعی (34)
دمِ عارف نسیمِ صبحدم ہے اسی سے ریشہَ معنی میں نم ہے
اگر کوئی شعیب آئے میسر شبانی سے کلیمی دو قدم ہے
مطلب: اس رباعی میں کہا گیا ہے کہ جو شخص صاحب عرفان ہوتا ہے اس کا سانس بھی نسیم سحری کے مانند لطافت کی حامل ہوتی ہے اور اسی کے سبب انسان حقیقت ابدی سے آشنا ہوتا ہے ۔ اس کی بے حد اہم مثال رب ذوالجلال کے دو پیغمبروں حضرت شعیب اور حضرت موسیٰ کی ہے کہ آخر الذکر نے اول اول حضرت شعیب کی بکریاں چرائیں پھران کے اتنے محبوب ہو گئے کہ حضرت شعیب نے انہیں اپنا داماد بنا لیا اور بیٹی سونپ دی ۔ مراد یہ ہے کہ صاحب عرفان کسی بھی معمولی شخص کو انتہائی رفعتوں سے دوچار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
رباعی (35)
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے وہ دل، وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج یہ سب باقی ہے، تُو باقی نہیں ہے
مطلب: اقبال کے بقول ملت کی رگوں میں ماضی کی طرح خون کی وہ گردش نہیں رہی جو جوش عمل سے دوچار کرتی تھی ۔ پھر یہ بھی ہے کہ نہ تو دل میں خلوص باقی رہا ہے نہ ایسی خواہش جو عروج انسانی کی مظہر ہوتی ہے ۔ ہر چند کہ آج بھی ظاہری سطح پر نماز، روزہ، قربانی اور حج کی روایات تو باقی رہ گئیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ وہ مسلمان باقی نہیں رہا جس کی شخصیت اور کردار ان خصوصیات کے اہل گردانے جاتے تھے ۔