محراب گل افغان کے افکار
(1)
میرے کہستاں ! تجھے چھوڑ کے جاؤں کہاں تیری چٹانوں میں ہے میرے اَب و جَد کی خاک
تعارف: محراب گل ایک افغانی کا نام ہے ۔ یہ ناول اور افسانہ کے کرداروں کی طرح ایک فرضی کردار کا نام ہے ۔ جس کے ذریعے علامہ نے پٹھانوں (افغانوں ) کی خودی بیدار کرنے کی کوشش کی ہے ۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر سرحد کے غیور افغان اپنی خودی کو پہچان کر اٹھ کھڑے ہوں تو برصغیر کو انگریزوں سے آزاد کرانا آسان ہو گا اس عنوان کے تحت اقبال نے بیس نظمیں لکھی ہیں ۔
معانی: کہستان: پہاڑوں کا سلسلہ ۔ اب و جد کی خاک: باپ دادا کی قبریں ۔
مطلب: اے میرے سامنے پھیلے ہوئے پہاڑوں کی سلسلے میں تجھے چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا کیونکہ تو میرا ہی نہیں میرے باپ دادا کا بھی مولد اور وطن اور میرے باپ دادا کی مٹی کا تو امین ہے ۔ یعنی ان کے جسم تیری مٹی میں دفن ہیں ۔
روزِ ازل سے ہے تو منزلِ شاہین و چرغ لالہ و گل سے تہی ، نغمہَ بلبل سے پاک
معانی: روز ازل: آغاز دنیا سے ۔ شاہیں : باز، شہباز ۔ چرغ : باز کی طرح کا ایک شکاری پرندہ جو چیلوں سے لڑتا ہے ۔ لالہ و گل: لالہ اور گلاب کا پھول ۔ تہی: خالی ۔ نغمہ بلبل: بلبل کی آواز ۔
مطلب: جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے اے میرے پہاڑی سلسلہ تو شہبازوں اور چرغوں کا وطن رہا ہے اور تیری فضا لالہ و گلاب کے پھولوں سے خالی اور بلبل کے نغموں سے پاک رہی ہے ۔ مراد یہ ہے کہ تیری فضا میں نرم و نازک لوگ نہیں ۔ بہادر اور مضبوط لوگ پیدا ہوتے ہیں ایسے لوگ جو خود کسی کا شکار نہیں ہوتے بلکہ دوسروں کو شکار کرتے ہیں ۔ جو آزادی کے دلدادہ اور غلامی سے بیزار ہیں ۔
تیرے خم و پیچ میں میری بہشتِ بریں خاک تری عنبریں ! آب ترا تاب ناک
معانی: خم وپیچ: بل کھاتی ہوئی ٹیڑھی راہیں ۔ بہشت بریں : اعلیٰ بہشت ۔ خاک: مٹی ۔ عنبریں : عنبر ایک خوشبودار مادہ، مراد عنبر کی خوشبو والا ۔ آب: پانی ۔ تابناک: چمکیلا ۔
مطلب: اے میرے پہاڑوں کے سلسلے تیری ٹیڑھی ترچھی اور بل کھاتی ہوئی راہوں کو میں اپنی اعلیٰ جنت سمجھتا ہوں ۔ تیری مٹی میرے لیے عنبر کی مانند خوشبودار ہے اور تیرا پانی میرے لیے چمکیلا ہے ۔
باز نہ ہو گا کبھی بندہَ کبک و حمام حفظِ بدن کے لیے روح کو کر دوں ہلاک
معانی: باز: شاہین ۔ بندہ: غلام ۔ کبک: تیتر ۔ حمام: کبوتر ۔ حفظ بدن: بدن کی حفاظت کے لیے، بدن یا پیٹ کی خاطر ۔
مطلب: محراب گل نے اپنے پہاڑی سلسلے میں رہنے والے لوگوں کو باز سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ شاہین کی طرح دوسروں کا شکار کرنے والے ہیں ۔ اور تیتر اور کبوتر کی طرح نہیں جو باز کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ ایسے غیرت مند لوگ جو شاہین کی طرح خود کبوتروں اور تیتروں کا شکار کرتے ہیں ۔ تیتروں اور کبوتروں کے غلام کیسے ہو سکتے ہیں ۔ ان کے غلام وہ اشخاص ہوتے ہیں جو اپنی روح کی قیمت پر اور اسے ہلاک کر کے اپنے بدن اور پیٹ کو پالتے ہیں جس طرح کہ وہ لوگ کر رہے ہیں جو انگریز کے خطاب ، جاگیریں اور انعامات حاصل کرنے کے لیے اپنی روحانی قدروں کو داوَ پر لگا دیتے ہیں اور اپنے بدن کی زینت اکٹھی کر لیتے ہیں ۔ یعنی دنیاوی مال و دولت ۔
اے مرے فقرِ غیور فیصلہ تیرا ہے کیا خلعتِ انگریز یا پیرہنِ چاک چاک
معانی: فقر غیور: غیرت والے فقیر ۔ خلعت انگریز : انگریز حاکم کا دیا ہوا قیمتی لباس ۔ پیرہن چاک چاک: پھٹا ہوا لباس ۔
مطلب: کلام اقبال پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ فقر دو قسم کا ہے ۔ ایک فقر تنگ دستی اور اس کی وجہ سے احتیاج اور گداگری کا نام ہے ۔ دوسرا فقر وہ ہے جو بے نیاز ہے ۔ وہ کسی کا محتاج نہیں ہوتا ہر کوئی اس کا محتاج ہوتا ہے ۔ اب اقبال اپنے اس فقر سے بہ زبان محراب گل افغان پوچھتے ہیں کہ تجھے بے احتیاج فقر قبول ہے یا انگریز حاکم کی خدمت کر کے اس سے قیمتی لباس پہننا پسند ہے ۔ فقر بے احتیاج میں بوریائے فقر اور پھٹا ہوا لباس تو ضرور ہو گا لیکن دل ہر چیز سے بے نیاز ہو گا ۔ اب تو ہی بتا کہ تجھے انگریز حاکم کی خدمت کر کے قیمتی لباس چاہیے یا آزاد رہ کر بوریائے فقیری اور لباس فقیری پسند ہے۔ فقر غیور لازماً چاک چاک لباس کو انگریز کی عطا کی ہوئی خلعت پر ترجیح دے گا ۔