(13)
(قرطبہ میں لکھے گئے)
یہ حوریانِ فرنگی، دل و نظر کا حجاب بہشتِ مغربیاں جلوہ ہائے پا بہ رکاب
معانی: حوریانِ فرنگی: مغربی ممالک کی عورتیں ۔ دل ونظر: دل اور نگاہ ۔
مطلب: نظم کے اس شعر میں کہا گیا ہے کہ یورپ کی خوبصورت عورتیں جن کو دیکھ کر لوگوں کے دل تڑپ اٹھتے ہیں امر واقعہ یہ ہے کہ یہ چہرے انسان کو راہ حق سے گمراہ کرتے ہیں ۔ اسی یورپ کے ممالک جو اپنے حسن و زیبائش کے اعتبار سے بہشت کے مانند ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے جلوے عارضی ہیں ۔ ان میں پائیداری نام کو نہیں ۔ تصنع اور بناوٹ دیکھا جائے تو ان حسین عورتوں اور یورپی ممالک کا بنیادی جوہر ہے ۔ ان میں جو جاذبیت ہے وہ بھی تصنع کی حامل ہے ۔
دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا مہ و ستارہ ہیں بحرِ وجود میں گرداب
معانی: گرداب: بھنور جو پانی میں گھومتا ہے اور جو چیز اس کی زد میں آئے غرق ہو جاتی ہے ۔
مطلب: اقبال اس شعر میں بھی مرد مسلماں سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیا میں جتنی خوبصورت اور بظاہر کارآمد چیزیں ہیں وہ تیرا مقصود نہیں بلکہ عملاً راہ حق میں رکاوٹ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ چنانچہ تجھ پر لازم ہے کہ ان خوبصورت چیزوں سے گریز کرتے ہوئے سنجیدگی کے ساتھ راہ حق پر گامزن ہو جا ۔
جہانِ صوت و صدا میں سما نہیں سکتی لطیفہَ ازلی ہے فغانِ چنگ و رباب
معانی: صوت و صدا: آواز و آہنگ۔ لطیفہَ ازلی: پہلے دن کا معاملہ ۔ فغاں : فریاد ۔ چنگ و رباب: گانے کے ساز ۔
مطلب: ہسپانیہ میں چونکہ موسیقی کا بہت زیادہ رواج تھا اس لیے اقبال نے قرطبہ میں قیام کے دوران شعر کہتے ہوئے اپنے ما فی الضمیر کو اس طرح بیان کیا ہے کہ ان میں چنگ و رباب کو علامتی حیثیت حاصل ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ چنگ و رباب میں ابتداء سے ہی ایسی خاصیت موجود ہے جو سمجھ میں نہ آنے کے باوجود آواز و آہنگ کی دنیا میں نہیں سما سکتی بالفاظ دگر مذکورہ سازوں میں جو تاثیر ہے اس کا بیان ممکن نہیں ۔
سکھا دیے ہیں اسے شیوہ ہائے خانقہی فقیہِ شہر کو صوفی نے کر دیا ہے خراب
معانی: شیوہ ہائے خانقہی: صوفیوں کا نظام، بے عملی کی زندگی ۔ فقیہِ شہر: شہر کا دینی رہنما ۔ کر دیا ہے خراب: یعنی گمراہ کر دیا ۔
مطلب: اس شعر میں علامہ علمائے شریعت اور پیران طریقت کا ذکر کرتے ہوئے قدرے تلخی اور ترشی سے کام لیتے ہیں ۔ ارشاد ہے کہ پیران طریقت صوفیوں سے خانقاہی نظام کو مادی سطح پر کامیابی کے ساتھ چلا کر علمائے شریعت کو بھی اس جانب راغب کر لیا ہے اور موخر الذکر عملاً برباد ہو کر رہ گئے ہیں ۔
وہ سجدہ، روحِ زمیں جس سے کانپ جاتی تھی اُسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب
معانی: روحِ ز میں : زمین کی روح ۔ محراب: مسجد کے درودیوار ۔
مطلب: اس ضمن میں صورت حال یہ پیدا ہوئی کہ علمائے شریعت کی بے عملی کے سبب آج محراب و منبر ان سجدوں کو ترس رہے ہیں جن کے باعث کبھی ز میں لرز اٹھتی تھی ۔
سُنی نہ مصر و فلسطیں میں وہ اذاں میں نے دیا تھا جس نے پہاڑوں کو رعشہَ سیماب
معانی: رعشہَ سیماب: پارے کی تڑپ ۔
مطلب: اور تو اور مصر و فلسطیں میں بھی اب اس اذان کا دبدبہ نہیں رہا جس نے پہاڑوں کو لرزا کر رکھ دیا تھا ۔ ظاہر ہے کہ مسلمان اس وقت باعمل اور صاحب کردار تھے جب کہ آج صورت حال اس کے برعکس ہے ۔
ہوائے قرطبہ شاید یہ ہے اثر تیرا مری نوا میں ہے سوز و سرورِ عہدِ شباب
معانی: سرور: لذت، مزا ۔ عہدِ شباب: جوانی کا زمانہ ۔
مطلب: اس آخری شعر میں اقبال کہتے ہیں میرے لہجہ میں جو شباب کا سوز و سرور ایک بار پھر رونما ہوا ہے سو یہ قرطبہ کے ماحول اور اس کی آب و ہوا کا اثر معلوم ہوتاہے ۔