عورت
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
معانی: عورت کے لفظ کے معنی ہی چھپی ہوئی چیز کے ہیں ۔ اس لیے عورت ہو تو اس کا چھپا ہوا ہونا یا پردے میں ہونا لازمی ہے اگر ایسا نہیں تو دیکھنے میں عورت ہے حقیقت میں نہیں ۔
مطلب: شاعر نے اس شعر میں ایک حقیقت بیان کی ہے کہ دنیا کی تصویر اگر رنگین ہے تو صرف عورت کی موجودگی کی وجہ سے ہے ۔ عورت ایک ایسے ساز کی مانند ہے کہ جس میں سے ایسے نغمے نکلتے ہیں جس سے آدمی کی زندگی میں اندرونی سوز یا گرمی ہنگامہ پیدا ہوتی ہے ۔ اگر دنیا میں صرف مرد ہی ہوتے اور عورت نہ ہوتی تو یہ تصویر کائنات سراسر بے رنگ ہوتی ۔
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مُشتِ خاک اس کی کہ ہر شرف ہے اس دُرج کا دُرِ مکنوں
معا نی: شرف: برتری ۔ ثریا: ستاروں کا ایک جھرمٹ ۔ مشت خاک: مٹی کی مٹھی، یعنی آدمی ۔ درج: ڈبیا ۔ در مکنوں : چھپا ہوا موتی ۔
مطلب: عورت بظاہر مٹی کی ایک مٹھی ہے یعنی خاکی جسم رکھتی ہے لیکن وہ آسمان کی بلندی پر چمکتی ہوئی ثریا سے بھی بڑھ کر ہے ۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی برتری یا عزت نظر آتی ہے وہ اسی ڈبیا کا پوشیدہ موتی ہے ۔ مراد یہ ہے کہ عورت ہی سب کی سربلندیوں اور عظمتوں کا سرچشمہ ہے ۔
مکالماتِ افلاطوں نہ لکھ سکی لیکن اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں
معانی: مکالاتِ افلاطوں : افلاطون ایک یونانی فلسفی تھا جس کی ایک کتاب کا نام مکالمات یعنی آپس میں گفتگو کرنا ۔ شرار: چنگاری ۔
مطلب: اس سے پہلے شعر میں علامہ نے یہ اشارہ دیا ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی باعزت اور برتری والے لوگ ہوئے ہیں وہ عورت ہی کے بطن سے پیدا ئے ہیں اور انھوں نے اسی کی گود میں تربیت پائی ہے ۔ اس اصول کو شاعر نے اس شعر میں ایک مثال دے کر سمجھایا ہے ۔ افلاطون ایک یونانی فلسفی تھا جس نے مکالمات کے نام سے ایک اہم فلسفیانہ کتاب لکھی ہے ۔ اگر عورت نہ ہوتی تو اس کے بطن سے افلاطون کی چنگاری پیدا نہ ہوتی ۔ اور اگر عورت بحیثیت ماں اس کی صحیح تربیت نہ کرتی تو وہ مکالمات جیسی کتاب لکھنے کے قابل نہ ہو سکتا ۔ یہ سچ ہے کہ ایسی کتاب وہ خود نہیں لکھ سکی لیکن ایسی کتاب لکھنے والے کو اس نے جنم بھی دیا ہے اور پرورش کر کے ایسی کتاب لکھنے کا اہل بھی بنایا ہے ۔