گورستان شاہی
آسماں بادل کا پہنے خرقہَ دیرینہ ہے کچھ مکدر سا جبینِ ماہ کا آئینہ ہے
معانی: گورستانِ شاہی: دکن میں قطب شاہی بادشاہوں کا قبرستان، مقبرہ، علامہ نے وہاں کی زیارت کی تھی جس کا نتیجہ یہ نظم ہے ۔ خرقہَ دیرینہ: پرانی گدڑی ۔ مکدر: دھندلا، میلا ۔
مطلب: اقبال کی یہ طویل نظم ان دنوں کی یادگار تخلیق ہے جب بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں وہ حیدر آباد دکن کے دورے پر گئے ۔ وہاں انھوں نے اور چیزوں کے علاوہ مقامی فرمانرواؤں کے مزار اور مقابر بھی دیکھے ۔ انہی کے حوالے سے اس نظم کی تخلیق ہوئی ۔ گورستان شاہی کا منظر نامہ کچھ یوں ہے جیسے اس پر ایستادہ آسمان نے کٹے پھٹے بادلوں کا بوسیدہ لباس پہن رکھا ہو اہے ۔
چاندنی پھیکی ہے اس نظارہَ خاموش میں صبحِ صادق سو رہی ہے رات کی آغوش میں
مطلب: انہی بادلوں کے سبب چاند کی روشنی بھی مدھم پڑی ہوئی ہے اور صبح صادق تو ابھی شب کی آغوش میں ہی محو خواب ہے ۔
کس قدر اشجار کی حیرت فزا ہے خامشی بربطِ قدرت کی دھیمی سی نوا ہے خامشی
معانی: اشجار: جمع شجر، درخت ۔ حیرت فزا: حیرانی بڑھانے والی ۔ بربط: باجا ۔ نوا: لے، ُسر ۔
مطلب: یہاں جو درخت ایستادہ ہیں وہ اس قدر خامشی اور سکوت کے عالم میں ایستادہ ہیں کہ ان کی یہ خامشی دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے ۔ یہ خامشی دیکھا جائے تو فطرت کے کسی ساز موسیقی کی دھیمی سی لے ہے ۔
باطنِ ہر ذرہَ عالم سراپا درد ہے اور خاموشی لبِ ہستی پہ آہِ سرد ہے
معانی: ہر ذرہ عالم: دنیا کی چھوٹی سے چھوٹی چیز ۔ سراپا درد: پورے طور پر تکلیف ۔ لب ہستی: وجود کے ہونٹ ۔
مطلب: یوں لگتا ہے جیسے اس دنیا کا ذرہ سر تا پا باطنی درد اور کرب کا شکار ہے جب کہ یہ خامشی زندگی کے ہونٹوں پر ایک آہ سرد کی حیثیت رکھتی ہے ۔
آہ! جولاں گاہِ عالمگیر یعنی وہ حصار دوش پر اپنے اٹھائے سیکڑوں صدیوں کا بار
معانی: جولاں گاہِ عالمگیر: مراد بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے جہاں گولکنڈہ کا مقام پر مشہور قلعہ فتح کرنے کے لیے حملہ کیا تھا ۔ حصار: قلعہ ۔ دوش: کندھا ۔
مطلب: اقبال گورستان شاہی کے قریب ایستادہ اس عظیم الشان قلعہ کی نشاندہی کرتے ہیں جس کو فتح کرنے کے لیے 1687 میں مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے گولکنڈہ کا محاصرہ کیا تھا ۔ اس قلعے کے گردوپیش کی ز میں میدان جنگ بن گئی تھی ۔ صدیوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے یہ قلعہ جو کبھی زندگی کی چہل پہل کا مظہر ہو گا آج اس پر اداسی چھائی ہوئی ہے ۔
زندگی سے تھا کبھی معمور ، اب سنسان ہے یہ خموشی اس کے ہنگاموں کا گورستان ہے
معانی: معمور: آباد ۔
مطلب: قلعے کے چاروں اطراف پھیلی ہوءئی ویرانی فی الواقع یہاں کی گزری ہوئی زندگی کے قبرستان کی حیثیت رکھتی ہے ۔
اپنے سُکانِ کہن کی خاک کا دل دادہ ہے کوہ کے سرپر مثالِ پاسباں استادہ ہے
معانی: سُکانِ کہن: پرانے رہنے والے ۔ دلدادہ: عاشق ۔ مثالِ پاسباں : چوکیدار، محافظ کی طرح ۔ استادہ: کھڑا، ایستادہ ۔
مطلب:دیکھا جائے تو یہ قلعہ نہ صرف یہ کہ اپنے قدیم باسیوں کی خاک کا عاشق ہے بلکہ پہاڑ کے اوپر قبرستان کے محافظوں کی مانند ایستادہ ہے ۔
ابر کے روزن سے وہ بالائے بام آسماں ناظرِ عالم ہے نجمِ سبز فامِ آسماں
معانی: بالائے بامِ آسماں : آسمان کی چھت کے اوپر ۔ ناظرِ عالم: دنیا کو دیکھنے والا ۔ سبز فام: ہرے رنگ کا ۔
مطلب: ایک ستارہ جو آسمان کی بلند فضا میں چمک رہا ہے یوں لگتا ہے جیسے جھک جھک کر بادلوں کے سوراخوں سے جھانک رہا ہے ۔
خاکبازی وسعتِ دنیا کا ہے منظر اسے داستاں ناکامیِ انساں کی ہے ازبر اسے
معانی: خاکبازی: مراد حقیر، معمولی سی بات ۔ ازبر: منہ زبانی یاد ۔
مطلب: دنیا کی وسعت کا نظارہ اس کے لیے ایک کھیل کی مانند ہے کہ اس کو تو انسانی ناکامیوں کی تمام داستانیں پوری طرح یاد ہیں ۔
ہے ازل سے یہ مسافر سوئے منزل جا رہا آسماں سے انقلابوں کا تماشا دیکھتا
معانی: سوئے منزل: منزل کی طرف ۔ انقلابوں : جمع انقلاب، تبدیلیاں ۔
مطلب: ہر چند کہ ستارہ اپنی منزل کی جانب محو سفر ہے اس کے باوجود وہ آسمان کی بلندیوں سے ان انقلابات کا نظارہ بھی کر رہا ہے جو زمین پر برپا ہو رہے ہیں ۔
گو سکوں ممکن نہیں عالم میں اختر کے لیے فاتحہ خوانی کو یہ ٹھہرا ہے دم بھر کے لیے
معانی: اختر: ستارہ ۔ فاتحہ خوانی: مردے کو ثواب پہنچانے کے لیے سورہ فاتحہ وغیرہ پڑھنا ۔
مطلب: ظاہر ہے اس ستارے کا مقدر سفر ہے چنانچہ اس کا کسی ایک مقام پر قیام ممکن نہیں ہے اس کے باوجود وہ ایک لمحے کے لیے جو یہاں رک گیا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس قبرستان شاہی پر فاتحہ خوانی کر رہا ہے ۔
رنگ و آبِ زندگی سے گل بدامن ہے ز میں سیکڑوں خوں گشتہ تہذیبوں کا مدفن ہے ز میں
معانی: رنگ و آب: سجاوٹ، رونق کا سامان ۔ گل بدامن: جھولی میں پھول لیے ہوئے ۔ خوں گشتہ: مراد مٹی ہوئی ۔ تہذیبوں : جمع تہذیب، مل کر زندگی گزارنے کے طور طریقے ۔
مطلب: یوں بھی یہ سرز میں زندگی کی چمک دمک کی مظہر ہونے کے علاوہ ایسے قبرستان کی حیثیت رکھتی ہے جس میں سینکڑوں تہذیبیں دفن ہیں ۔
خواب گہ شاہوں کی ہے یہ منزلِ حسرت فزا دیدہَ عبرت خراجِ اشکِ گلگوں کر ادا
معانی: خواب گہ: خواب گاہ، آرام کی جگہ، مدفن ۔ حسرت افزا: افسوس بڑھانے والی ۔ دیدہَ عبرت: تبدیلیوں ، انقلابوں سے نصیحت حاصل کرنے والی آنکھ ۔ خراج: محصول، ٹیکس ۔ اشکِ گلگوں : سرخ خون کے آنسو ۔
مطلب: کرب و غم میں اضافہ کرنے والی یہ سرزمین ایسے پر شکوہ حکمرانوں کی آرامگاہ ہے جس کا نظارہ ہی عبرت اور خون رلا دینے والا ہے ۔
ہے تو گورستاں ، مگر یہ خاک گردوں پایہ ہے آہ! اک برگشتہ قسمت قوم کا سرمایہ ہے
معانی: خاک گردوں پایہ: آسمان کے سے مرتبے والی یعنی بلند زمین ۔ برگشتہ قسمت: جس کے نصیب پھوٹ گئے ہوں ۔
مطلب: مگر اسے خراج یوں ہی پیش کیا جا سکتا ہے اس لیے کہ یہ سرزمین لاکھ گورستان سہی! تاہم اس کا مرتبہ آسمان کے ہم پلہ ہے ۔ یہ نہ بھول کہ یہ قبرستان اس قوم کا سرمایہ ہے جس کا مقدر بگڑ گیا ہے ۔
مقبروں کی شان، حیرت آفریں ہے اس قدر جنبشِ مژگاں سے ہے چشمِ تماشا کو حذر
معانی: حیرت آفریں : حیرانی پیدا کرنے والی ۔ جنبشِ مژگاں : پلکوں کا ہلنا ۔ چشم تماشا: دیکھنے والی آنکھ ۔ حذر:بچنے کی حالت ۔
مطلب: پھر بھی ان مقبروں کا شکوہ اس قدر حیرت ناک ہے کہ ان پر نظر نہیں ٹھہرتی اور دیکھنے والا آنکھ جھپکانے کی جرات بھی نہیں کر سکتا ۔
کیفیت ایسی ہے ناکامی کی اس تصویر میں جو اتر سکتی نہیں آئینہَ تحریر میں
معانی: آئینہَ تحریر میں نہ اترنا: جس کا لکھا جانا بہت مشکل ہو ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ گورستان شاہی کی یہ فضا ایک سرکردہ قوم کے ماضی کی ناکامی کی ایسی تصویر ہے جس سے ظاہر ہونے والے کرب کو محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس کرب کو فی الواقع احاطہ تحریر میں لانا ناممکن ہے ۔
سوتے ہیں خاموش آبادی کے ہنگاموں سے دور مضطرب رکھتی تھی جن کو آرزوئے ناصبور
معانی: آرزوئے ناصبور: بے چین تمنا، پوری نہ ہونے والے خواہش ۔
مطلب: وہ حکمران جن کو ان کی تشنہ تکمیل آرزوئیں اور خواہشات ہمیشہ مضطرب اور بے چین رکھا کرتی تھیں آج وہ آبادی سے کوسوں دور اس ویرانے میں خاموشی سے ابدی نیند سو رہے ہیں ۔
قبر کی ظلمت میں ہے ان آفتابوں کی چمک جن کے دروازوں پہ رہتا تھا جبیں گستر فلک
معانی: جبیں گستر: ماتھا رکھنے والا ۔
مطلب: جن کے چہرے سورج کی طرح روشن تھے اب وہ قبر کے اندھیروں سے دوچار ہیں ۔ یہی وہ جلیل القدر فرمانروا تھے جن کے دروازوں پر آسمان بھی سجدہ ریز ہوتا نظر آتا تھا ۔
کیا یہی ہے ان شہنشاہوں کی عظمت کا مآل جن کی تدبیرِ جہاں بانی سے ڈرتا تھا زوال
معانی: تدبیرِ جہانبانی: حکومت کرنے کے انداز پر غور و فکر ۔
مطلب: سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کے انداز حکومت سے زوال کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کیا ان شہنشاہوں کی عظمت کا یہی نتیجہ نکلنا تھا کہ تمام تر شکوہ کے باوجود آج زمین ان کا اوڑھنا بچھونا ہے ۔
رعبِ فغفوری ہو دنیا میں کہ شانِ قیصری ٹل نہیں سکتی غنیمِ موت کی یورش کبھی
معانی: رعبِ فغفوری: چین کے بادشاہوں کا دبدبہ ۔ ٹلنا: رکنا، دور ہونا ۔ غنیم: دشمن ۔ یورش: حملہ ۔
مطلب: چنانچہ اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ خواہ چین جیسی عظیم الشان سلطنت کے فرمانرواؤں کا رعب و دبدبہ ہو یا روم کے پر ہیبت شہنشاہوں کی شان و شوکت ہو موت ایک ایسی دشمن ہے جس کا وار کبھی بھی نہیں رک سکتا ۔
بادشاہوں کی بھی کشتِ عمر کا حاصل ہے گور جادہَ عظمت کی گویا آخری منزل ہے گور
معانی: کشتِ عمر: زندگی کی کھیتی ۔ جادہ: راستہ ۔ شورشِ بزمِ طرب: عیش و نشاط کی محفل کا شور وہنگامہ ۔
مطلب: چنانچہ یہ طے ہے کہ عام شخص ہو یا کوئی بادشاہ اول و آخر قبر ہی اس کا آخری مسکن ہے اور کیسا ہی عظیم و پرہیبت شخص ہو اس کی ابدی منزل قبر ہی ہے ۔
شورشِ بزم طرب کیا، عود کی تقریر کیا دردمندانِ جہاں کا نالہَ شب گیر کیا
معانی: شورش بزم طرب: عیش و نشاط کی محفل کا شور و ہنگامہ ۔ عود کی تقریر: مراد باجے کی تان، سُر ۔ نالہَ شب گیر: راتوں کو اٹھ اٹھ کر رونا ۔ کیا: چاہے ۔
مطلب: چنانچہ یہ طے ہے کہ اس گورستان میں سونے والے بہادر اور اولوالعزم شہنشاہوں کو نہ تو عیش و عشرت کے ہنگامے ہی جگا سکتے ہیں نہ ساز و موسیقی کی صدائیں ہی بیدار کر سکتی ہیں ۔
عرصہَ پیکار میں ہنگامہَ شمشیر کیا خون کو گرمانے والا نعرہَ تکبیر کیا
معانی: عرصہَ پیکار: میدان جنگ ۔ ہنگامہَ شمشیر: مراد تلوار کا مسلسل چلنا ۔
مطلب: نہ ان مصیبت زدگان کی آہیں اور متحرک کر سکتی ہیں ان بہادروں کو میدان جنگ میں تلوار زنی کے ہنگامے اور وہاں بلند ہونے والے تکبیر کے پرجوش نعرے بھی جگا نہیں سکتے ۔
اب کوئی آواز سوتوں کو جگا سکتی نہیں سینہَ ویراں میں جانِ رفتہ آ سکتی نہیں
معانی: سینہ ویراں : مراد مردہ جسم ۔ جانِ رفتہ: نکلی ہوئی روح ۔
مطلب: سچ تو یہ ہے کہ ان ہمیشہ کے لیے خوابیدہ لوگوں کو اب نہ تو کوئی آواز ہی اٹھا سکتی ہے نہ ہی انہیں دوبارہ زندگی مل سکتی ہے ۔
رُوح مشتِ خاک میں زحمت کشِ بیداد ہے کوچہ گردِ نَے ہوا جس دم نفس فریاد ہے
معانی: مشت خاک: جسم انسانی ۔ زحمت کشِ بیداد: سختی، ظلم کی تکلیف اٹھانے والی ۔ کوچہ گردِ نَے: بانسری میں گھومنے والا ۔
مطلب: قبر کا عذاب تو ایسا ہے جسے جسم ہی نہیں بلکہ روح بھی برداشت کرنے پر مجبور ہے ۔ جب بانسری میں سانس داخل ہوتی ہے تو یہی فریاد یا نغمے میں ڈھل جاتی ہے ۔
زندگی انساں کی ہے مانندِ مرغِ خوش نوا شاخ پر بیٹھا کوئی دم چہچہایا، اڑ گیا
معانی: خوش نوا: دل کش آواز میں چہچہانے والا ۔
مطلب: اسی طرح انسان بھی ایک خوش الحان پرندے کی مانند ہے ۔ پرندہ کسی شاخ پر بیٹھا، نغمے الاپے اور پھر اڑ گیا ۔
آہ! کیا آئے ریاضِ دہر میں ، ہم کیا گئے زندگی کی شاخ سے پھوٹے، کھلے، مرجھا گئے
معانی: ریاضِ دہر: زمانے کا باغ ۔ کیا آئے، کیا گئے: مراد بہت تھوڑی مدت کے لیے آئے ۔ پھوٹے: اگے ۔
مطلب: ہم انسان! افسوس کہ اس دنیا میں محض ایک پھول کی مانند آئے ۔ شاخ سے نکلے، پھول بنے اور پھر مرجھا کر رہ گئے ۔
موت ہر شاہ و گدا کے خواب کی تعبیر ہے اس ستم گر کا ستم انصاف کی تصویر ہے
مطلب: سو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ فقیر ہو یا امیر! کسی چھوٹے بڑے سے رعایت نہیں کرتی اس لیے کہ اس کی نظروں میں تو سب ہی برابر ہیں ۔
سلسلہ ہستی کا ہے اک بحرِ ناپیدا کنار اور اس دریائے بے پایاں کی موجیں ہیں مزار
معانی: بحر ناپیدا کنار: بہت وسیع سمندر ۔ بے پایاں : جو کہیں ختم نہ ہوتا ہو، بہت وسیع ۔ خون رونا: بہت دکھ کے ساتھ رونا ۔
مطلب: اقبال اس شعر میں یوں گویا ہوتے ہیں کہ حیات انسانی ایک ایسے سمندر کی طرح ہے جس کا دوسرا کنارہ نہیں ہوتا لیکن سمندر کی طرح اس میں بھی بے شمار لہریں اور مدوجزر ہوتے ہیں جنہیں انسانی مقابر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔
اے ہوس! خوں رو کہ ہے یہ زندگی بے اعتبار یہ شرارے کا تبسم، یہ خسِ آتش سوار
معانی: خون رونا: بہت دکھ کے ساتھ رونا ۔ خسِ آتش سوار: آگ پر پڑا ہوا تنکا ۔
مطلب: اس دنیا میں زیادہ عرصے تک زندہ رہنے کی تمنا رکھنے والا ہمیشہ خون کے آنسو روتا ہے کہ یہ زندگی بلاشک ناقابل اعتبار ہے ۔ ناپائیداری کے لحاظ سے اس زندگی کو محض چند لمحوں تک چمکنے والی چنگاری اور آگ کی لپیٹ میں آ جانے والے تنکے کے مماثل قرار دیا جا سکتا ہے ۔
چرخِ بے انجم کی دہشت ناک وسعت میں مگر بیکسی اس کی کوئی دیکھے ذرا وقتِ سحر
معانی: چرخِ بے انجم: ستاروں کے بغیر آسمان ۔ بیکسی: تنہائی ۔ مہتاب: چاند ۔
مطلب: اور یہ آسمان پر جو چاند روشن ہے اسے زندگی کے حوالے سے رب ذوالجلال کا اعجاز قرار دیا جانا چاہیے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ پارے جیسا سفید رنگ اور متحرک لباس پہنے آسمان کی وسعتوں میں اپنے سفر پر ہمیشہ رواں دواں رہتا ہے ۔ لیکن اس لمحے جب ستارے روپوش ہو جاتے ہیں تو آسمان کی دہشتناک فضا میں چاند کی بے مائیگی کا اندازہ کچھ اس طرح سے ہو سکتا ہے
اک ذرا سا ابر کا ٹکڑا ہے، جو مہتاب تھا آخری آنسو ٹپک جانے میں ہو جس کی فنا
مطلب: کہ وہ ایک ایسا بادل نظر آتا ہے جس سے بارش کا آخری قطرہ بھی برس چکا ہو اور جو اپنی عمر طببعی کے مرحلے سے گزر چکا ہو ۔
زندگی اقوام کی بھی ہے یونہی بے اعتبار رنگ ہائے رفتہ کی تصویر ہے ان کی بہار
معانی: رنگہائے رفتہ: اڑے ہوئے رنگ، مراد وہ حالتیں جو فنا ہو چکیں ۔
مطلب: جملہ عناصر کی طرح اقوام عالم کا وجود بھی کسی اعتبار کا حامل نہیں ہے ۔ ان کا عروج ماضی کے حوالے سے ہی دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس سے مراد یہی ہے کہ ہر قوم کا مقدر زوال سے عبارت رہا ہے ۔
اس زیاں خانے میں کوئی ملتِ گردوں وقار رہ نہیں سکتی ابد تک بارِ دوشِ روزگار
معانی: زیاں خانہ: وہ جگہ جہاں نقصان ہی نقصان ہو ۔ گردوں وقار: آسمان کے سے مرتبے والی ۔ بارِ دوشِ روزگار: زمانے کے کندھے کا بوجھ ۔
مطلب: اب تو یہ کائنات قوموں کے عروج و زوال کے مناظر کی اس قدر عادی ہو چکی ہے کہ اس کو کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں اور اس منظر کو ہمیشہ بے اعتنائی سے دیکھتی ہے ۔
اس قدر قوموں کی بربادی سے ہے خوگر جہاں دیکھتا بے اعتنائی سے ہے یہ منظر جہاں
معانی: خوگر: عادی ۔ بے اعتنائی: بے پروائی ۔
مطلب: اب تو یہ کائنات قوموں کے عروج و زوال کے مناظر کی اس قدر عادی ہو چکی ہے کہ اس کو کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں اور اس منظر کو ہمیشہ بے اعتنائی سے دیکھتی ہے ۔
ایک صورت پر نہیں رہتا کسی شے کو قرار ذوقِ جدت سے ہے ترکیبِ مزاجِ روزگار
معانی: ذوقِ جدت: ہر گھڑی نئی چیز کا شوق ۔ ترکیبِ مزاج: مزاج کا کئی چیزوں سے بننا ۔
مطلب: امر واقعہ یہ ہے کہ کوئی بھی شے ایک ہی شکل میں اور ایک ہی انداز سے برقرار نہیں رہتی ۔
ہے نگینِ دہر کی زینت ہمیشہ نامِ نو مادرِ گیتی رہی، آبستنِ اقوامِ نو
معانی: نگیں دہر: زمانے کا نگینہ ۔ نام نو: نیا نام، نئی بات ۔ مادرِ گیتی: زمانے کی ماں یعنی زمانہ ۔ آبستن: جس کے پیٹ میں بچہ کو ۔
مطلب: زمانہ اتنا جدت پسند ہو چکا ہے کہ ہر روایت میں نت نئی تبدیلی کا خواہاں ہے ۔ یہی سبب ہے کہ دنیا میں نئی نئی قو میں جنم لیتی رہتی ہیں اور عہد کا مزاج بدلتا رہتا ہے ۔
ہے ہزاروں قافلوں سے آشنا یہ رہ گزر چشمِ کوہِ نور نے دیکھے ہیں کتنے تاجور
معانی: کوہ نور: ایک مشہور ہیرے کا نام جو کئی بادشاہوں کے تاجوں میں لگا، آخر میں ملکہ برطانیہ کے تاج کی زینت بنا ۔ تاجور : بادشاہ ۔
مطلب: یہ کائنات ایک ایسی شاہراہ کے مانند ہے جہاں سے مختلف فرمانرواؤں اور عام انسانوں کے ہزارہا قافلے گزرتے رہے ہیں ۔ اور تاریخی حیثیت کے حامل یہ کوہ نور ہیرا نہ جانے کتنے شہنشاہوں کے تاج کی زینت بن چکا ہے ۔
مصر و بابل مٹ گئے، باقی نشاں تک بھی نہیں دفترِ ہستی میں ان کی داستاں تک بھی نہیں
معانی: بابل: عیسیٰ سے چار ہزار سال پہلے عراق کا پایہ تخت تھا ۔ مصر: مشہور اور قدیم ملک جہاں فرعونوں نے حکومت کی ۔ دفترِ ہستی: وجود ، کائنات کی کتاب ۔
مطلب: آج مصر اور بابل کی عظیم اور انتہائی قدیم تہذیبیں ہمیشہ کے لیے اس طرح مٹ کر رہ گئیں کہ ان کا نشان تک باقی نہیں ۔ نا ہی ان کا کوئی نام لیوا موجود ہے ۔
آ دبایا مہرِ ایراں کو اجل کی شام نے عظمتِ یونان و روما لوٹ لی ایام نے
معانی: آ دبایا: قابو کیا، پکڑ لیا ۔ مہرِ ایراں : آریا مہر، مراد ایران جو قدیم میں سورج کی پرستش کرنے والا ملک تھا ۔
مطلب: ایران جیسے عظیم المرتبت شہنشاہ فنا کے گھاٹ اتر گئے ان کی حکومتیں بھی تباہ و برباد ہو گئیں ۔ یہی نہیں بلکہ وقت نے یونان اور روم جیسی اقوام کی عظمت وہیبت کو بھی خاک میں ملا کر رکھ دیا
آہ! مسلم بھی زمانے سے یونہی رخصت ہوا آسماں سے ابر آذاری اٹھا، برسا، گیا
معانی: ابر آذاری: موسم بہار کا بادل، مراد مسلمانوں کے شاندار کارنامے ۔
مطلب: انہی تہذیبوں کی طرح مسلمانوں کی تہذیب بھی بالاخر اس طرح حادثات زمانہ کی شکار ہو کر رہ گئی جیسے کہ موسم بہار میں بادل پورے جوش و خروش کے ساتھ آتا ہے، برستا ہے اور پھر ناپید ہو جاتا ہے ۔ یہی حال ملت اسلامیہ کی تہذیب کا ہے ۔
ہے رگِ گل صبح کے اشکوں سے موتی کی لڑی کوئی سورج کی کرن شبنم میں ہے الجھی ہوئی
مطلب: اس شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ پھولوں پر صبح کے وقت شبنم کے قطرے اس انداز سے پڑے ہوئے ہیں کہ موتی کی لڑی کی طرح محسوس ہوتے ہیں ۔ یوں لگتا ہے کہ شبنم کے کسی قطرے میں سورج کی کرن الجھ کر رہ گئی ہے ۔
سینہَ دریا شعاعوں کے لیے گہوارہ ہے کس قدر پیارا لبِ جو ، مہر کا نظارہ ہے
معانی: سینہَ دریا: مراد دریا کے پانی کی سطح ۔ گہوارہ: جھولا ۔ لبِ جو: ندی کا کنارہ ۔
مطلب: سورج کی شعاعوں کے لیے سطح دریا ایک گہوارے کی مانند لگ رہی ہے اور اسی دریا کے کنارے پر طلوع آفتاب کا منظر بڑا پیارا لگ رہا ہے ۔
محوِ زینت ہے صنوبر، جوئبار آئینہ ہے غنچہَ گل کے لیے بادِ بہار آئینہ ہے
معانی: صنوبر: سرو کی قسم کا درخت جو ہمیشہ سبز رہتا ہے ۔ جوءبار: ندی ۔
مطلب: صنوبر کا درخت اسی طرح سے اپنی آرائش میں مصروف ہے کہ ندی کا شفاف پانی اس کے لیے آئینہ بنا ہوا ہے ۔ بالکل اسی طرح غنچے کے لیے بہار کی زندگی بخش ہوائیں آئینے کا کام دے رہی ہیں ۔
نعرہ زن رہتی ہے کوئل باغ کے کاشانہ میں چشمِ انساں سے نہاں ، پتوں کے عزلت خانہ میں
معانی: نعرہ زن: چہچہا رہی ۔ کاشانہ: محل، گھونسلا ۔ عزلت خانہ: تنہائی کی جگہ ۔
مطلب: باغ میں اپنے گھونسلے کے قریب کوئل نغمہ سرائی کر رہی ہے ۔ تاہم وہ پتوں کے جھرمٹ میں بیٹھی ہوئی انسان کی آنکھ سے اوجھل ہے ۔
اور بلبل، مطربِ رنگیں نوائے گلستاں جس کے دم سے زندہ ہے گویا ہوائے گلستاں
معانی: مطرب: گانے والا، والی ۔ رنگیں نوا: دل کش، چہچہاٹ والی ۔ ہوائے گلستاں : باغ کی فضا ۔
مطلب: اسی طرح بلبل بھی جو گلستان کی فضاء کو اپنے خوبصورت نغموں سے رنگین بنائے ہوئے ہے جس کے سبب باغ میں آمد بہار کا احساس ہوتا ہے ۔
عشق کے ہنگاموں کی اڑتی ہوئی تصویر ہے خامہَ قدرت کی کیسی شوخ یہ تحریر ہے
معانی: خامہ: قلم ۔ شوخ تحریر: دل کو لبھانے والی عبارت ۔
مطلب: یہ سارا منظر نامہ یوں لگتا ہے جیسے جذبہ عشق کی تصویر سے ہم آہنگ ہے ۔ عملی سطح پر اس کا خامہ قدرت کے شوخ تحریر سے عبارت قرار دیا جا سکتا ہے ۔
باغ میں خاموش جلسے گلستاں زادوں کے ہیں وادیِ کہسار میں نعرے شباں زادوں کے ہیں
معانی: گلستاں زادہ: مراد پھول، پودے وغیرہ ۔ شباں زادہ: چرواہے کا بیٹا ۔
مطلب: رنگارنگ درخت باغ میں پرسکوت حالت میں ایستادہ ہیں اور پہاڑ کی وادیوں میں گڈریوں کے نو عمر بچے کھیل کود اور نعرہ زنی میں مصروف ہیں ۔
زندگی سے یہ پرانا خاکداں معمور ہے موت میں بھی زندگانی کی تڑپ مستور ہے
معانی: پرانا خاکداں : دنیا ۔
مطلب: عملی سطح پر یہ اتنی قدیم دنیا قرنہا قرن گزر جانے کے باوجود زندگی کی رونقوں سے مامور ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ وہ لوگ جو فنا کے گھاٹ کبھی کے اتر چکے ہیں ان کی موت میں بھی زندگی کی تڑپ چھپی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔
پتیاں پھولوں کی گرتی ہیں خزاں میں اس طرح دستِ طفلِ خفتہ سے رنگیں کھلونے جس طرح
معانی: طفلِ خفتہ: سویا ہوا بچہ ۔
مطلب: موسم خزاں کے دوران شگفتہ پھولوں کی پتیاں اس طرح سے اڑ اڑ کر زمین پر گرتی ہیں جیسے سوئے ہوئے بچے کے ہاتھ سے کھلونے گر جائیں ۔
اس نشاط آباد میں گو عیش بے اندازہ ہے ایک غم یعنی غمِ ملت ہمیشہ تازہ ہے
معانی: نشاط آباد: خوشیوں کا شہر، دنیا ۔
مطلب: ہر چند کہ اس دنیا میں بے اندازہ عیش و نشاط موجود ہے ۔ اس کے باوجود ملت کی بربادی کا ایک ایسا غم ہے کہ جو ہمیشہ تازہ رہتا ہے ۔
دل ہمارے یادِ عہدِ رفتہ سے خالی نہیں اپنے شاہوں کو یہ امت بھولنے والی نہیں
معانی: عہد رفتہ: مراد گذرا ہوا شاندا ر دور ۔
مطلب: چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دل اپنے ماضی کی یادوں سے خالی نہیں ہو سکتے نا ہی یہ امت اپنے عظیم المرتبت بادشاہوں کو فراموش کر سکتی ہے ۔
اشکباری کے بہانے ہیں یہ اجڑے بام و در گریہَ پیہم سے بینا ہے ہماری چشمِ تر
معانی: اشکباری: آنسو بہانے کی حالت ۔ بام و در: چھتیں اور دروازے، مراد قبرستان ۔ گریہَ پیہم: مسلسل، لگاتار رونا ۔ بینا: دیکھنے والی ۔ چشمِ تر: گیلی یعنی روتی آنکھ ۔
مطلب: یہ برباد شدہ بام و در فی الواقع ہماری اشکباری کے لیے بہانے بنے ہوئے ہیں ان کی مسلسل یاد سے ہی ہم ابھی تک اپنی سابقہ دانش و حکمت سے استفادہ کر رہے ہیں ۔
دہر کو دیتے ہیں موتی دیدہَ گریاں کے ہم آخری بادل ہیں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم
معانی: دہر: زمانہ ۔ موتی: مراد آنسو ۔ دیدہَ گریاں : روتی ہوئی آنکھیں ۔
مطلب: اس کائنات کو بھی اپنے اس طرز علم سے درخشندگی عطا کر رہے ہیں ۔ دیکھا جائے تو ہم ایک گزرے ہوئے طوفان کے آخری بادل ہیں یعنی اپنے سلف کی عظمتوں کی آخری یادگار ہیں ۔
ہیں ابھی صد ہا گہر اس ابر کی آغوش میں برق ابھی باقی ہے اس کے سینہَ خاموش میں
معانی: گہر: موتی ۔ آغوش: گود ۔ برق: بجلی ۔ وادیِ گل: پھولوں کا باغ یعنی سرسبز اور آباد جگہ، مقام ۔
مطلب: ابھی تو ہمارے دامن میں بے شمار گوہر پوشیدہ ہیں اور ان خاموش سینوں میں بہت سی بجلیاں چھپی ہوئی ہیں ۔
وادیِ گل خاکِ صحرا کو بنا سکتا ہے یہ خواب سے اُمیدِ دہقاں کو جگا سکتا ہے یہ
معانی: وادیِ گل: پھولوں کا باغ، آباد جگہ ۔ خاک صحرا: تباہ شدہ ، اجڑی ہوئی سرزمین ۔ خواب: نیند ۔ دہقان: کسان ۔
مطلب: اب بھی ہم دشت و صحرا کو وادی گل میں تبدیل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور سوئے ہوئے کسانوں کو بیدار کر سکتے ہیں ۔
ہو چکا گو قوم کی شانِ جلالی کا ظہور ہے مگر باقی ابھی شانِ جمالی کا ظہور
معانی: شانِ جلالی: مراد مسلمان کا اپنی طاقت و رعب دکھانے کا زبردست اندازجو گزر چکا ہے ۔ ۔ شانِ جمالی کا ظہور: اب اس کی محبت اور کردار کا دور باقی ہے جو ابھی آنے والا ہے ۔
مطلب: ہر چند کہ ہماری شان و شوکت اور حکمرانی کا دور گزر چکا ہے اس کے باوجود اب محبت اور کردارکے حسن کا ظہور باقی ہے ۔