مومن
(دنیا میں )
ہو حلقہَ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
معانی: حلقہَ یاراں : دوستوں کی محفل ۔ بریشم: ریشم ۔ رزمِ حق و باطل: حق و باطل کی جنگ ۔ فولاد: لوہا ۔
مطلب: مو من کی دنیا میں پہچان یہ ہے کہ جب وہ اپنے مسلمان بھائیوں ، مومن دوستوں میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ یوں رہتا ہے اور ان سے یوں پیش آتا ہے جیسا کہ ریشم ہو جو ملائم و نرم ہوتا ہے ۔ نرمی، ملائمت، اخوت، رواداری، مروت، ہمدردی اس کا شیوہ ہوتا ہے لیکن جب دشمن دین سے مقابلہ پڑ جائے جب سچ اور جھوٹ ، حق و باطل اور کفر و اسلام میں معرکہ ہو جائے تو یہی ریشم کی طرح ملائم مومن لوہے کی طرح سخت ہو جاتا ہے اور جب تک باطل کو جھکا نہیں لیتا ضرب کاری سے کام لیتا رہتا ہے ۔
افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن
معانی: افلاک: آسمان ۔ حریفانہ کشاکش: ٹکراوَ، کھینچا تانی ۔ خاکی: زمینی ۔ خاک سے آزاد سے مومن: یعنی مومن زمین کی قید کو خاطر میں نہیں لاتا ۔
مطلب: مومن ہر وقت آسمانوں کے مدمقابل اور ان کا دشمن بنا رہتا ہے ۔ ایک تو اس لیے کہ آسمانوں سے کوئی بلا آئے وہ اس کا مقابلہ کرتا ہے اس کے آگے جھکتا نہیں دوسرے یہ کہ وہ ان افلاک سے دوبدو ہو کر ان سے آگے نکل جانا چاہتا ہے ۔ زمین پر ہوتا ہوا پنا تعلق آنسوئے افلاک یا عرشِ معلی سے قائم رکھنا چاہتا ہے ۔ اب یہ بات کسے معلوم نہیں کہ زمان و مکان سے آگے آنسوئے افلاک سے تعلق پیدا کرنا تب ہی ہو سکتا ہے جب مومن بھی نوری ہو کیونکہ نوری جہان کا تعلق نور سے ہی ہو سکتا ہے اس لیے مومن جو بشریت کے لحاظ سے خاکی ہوتا ہے لیکن حقیقت اس کی نورانی ہوتی ہے ۔ وہ خاکی ہوتا ہوا خاک سے آزاد ہوتا ہے ۔ بندہ ہوتے ہوئے مومن صفات ہوتا ہے ۔ نور ی نہاد ہوتا ہے ۔
جچتے نہیں کُنجشک و حمام اس کی نظر میں جبریل و اسرافیل کا صیّاد ہے مومن
معانی: کنجشک: چڑیا ۔ حمام: کبوتر ۔
مطلب: مومن چڑیوں اور کبوتروں کا شکار نہیں کھیلتا ۔ بلکہ وہ جبریل و اسرافیل جیسے فرشتوں کو اپنی گرفت میں لاتا ہے ۔ یہاں کوئی گستاخی کا پہلو نہیں ہے کیونکہ علامہ نے ان فرشتوں کو بطور استعارہ استعمال کیا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ مومن کے مقاصد بہت بلند، اعلیٰ اور ارفع و پاک ہوتے ہیں ۔ معمولی مقاصد تو اس کی نظر کو پسند ہی نہیں آتے ۔
مومن (جنت میں )
کہتے ہیں فرشتے کہ دلآویز ہے مومن حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
معانی: دلآویز : دل کو لگنے والا، پسندیدہ ۔ کم آمیز: کم ملنے والا ۔
مطلب: فرشتے یہ کہتے ہیں کہ مومن ایک دل آویز یا دل کو لبھانے والی شخصیت ہے ۔ حوریں یہ کہتی ہیں کہ دوسروں کے مقابلے میں مومن ہم سے کم ملتا ہے یا بالکل نہیں ملتا ۔ مراد یہ ہے کہ مومن ایک انوکھی اور عجب شے ہے ۔ جب جنت میں حوروں کے لیے اور جنت کی دوسری پرکشش چیزوں کے لیے آتے ہیں اور مومن ہے کہ وہ ان کی طرف دھیان بھی نہیں کرتا ۔ اس کی تو صرف ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ دیدار ذات ہو جائے ۔ وہ اپنے رب سے ملاقی ہونا چاہتا ہے ۔ حوروں اور جنت کی اسے کوئی پرواہ نہیں ۔