Please wait..

حُسن و عشق

 
جس طرح ڈوبتی ہے کشتیِ سیمینِ قمر
نورِ خورشید کے طوفان میں ہنگامِ سحر

معانی: کشتیِ سیمینِ قمر: چاند کی چاندی ایسی سفید کشتی ۔ نورِ خورشید: سورج کی روشنی ۔ طوفان: مراد تیزی ۔
مطلب: اس نظم کے مفہوم تک رسائی کے لیے اس حقیقت کا ادراک لازم ہے کہ اقبال اپنے جذبہ عشق کے حوالے سے ان اشعار میں اپنے محبوب سے مکالمہ کرتے ہوئے حسن و عشق کی نفسیات کو واضح کرتے ہیں ۔ فرماتے ہیں اے میرے محبوب! جس طرح طلوع سحر کے ہنگام سورج کی تیز روشنی میں چاند کی نسبتاً مدھم روشنی مدغم ہو کر رہ جاتی ہے

 
جیسے ہو جاتا ہے گم نور کا لے کر آنچل
چاندنی رات میں مہتاب کا ہم رنگ کنول

مطلب: یا جیسے چاندنی رات میں کنول کا پھول اس کے ہم رنگ ہونے کے باعث نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے ۔

 
جلوہَ طور میں جیسے یدِ بیضائے کلیم
موجہَ نکہتِ گلزار میں غنچے کی شمیم
ہے ترے سیلِ محبت میں یونہی دل میرا

جلوہَ طور: طور پر اللہ تعالیٰ کی تجلی جو حضرت موسیٰ نے دیکھی ۔ یدِ بیضا: سفید ہاتھ ۔ موجہ: لہر ۔ نکہت گلزار: باغ کی خوشبو ۔ شمیم: خوشبو، مہک ۔
مطلب:یا جس طرح کوہ طور پر نور خداوندی کی ضو سے حضرت موسیٰ کا سفیدی مائل ہاتھ ایک طرح سے ناپید ہو جاتا ہے ۔ یا پھر جیسے طلوع کے وقت گلستان میں پھولوں کی اجتماعی خوشبو ایک چھوٹے سے پھول کی انفرادی خوشبو کو اپنے دامن میں لپیٹ لیتی ہے ۔ بالکل اسی طرح تیری محبت اور عشق میں میرے دل کا عالم ہے مراد یہ کہ میں اپنے وجود کو تیرے وجود میں ضم کر چکا ہوں ۔

 
تو جو محفل ہے، تو ہنگامہَ محفل ہوں میں
حُسن کی برق ہے تو عشق کا حاصل ہوں میں

معانی: ہنگامہَ محفل: محفل کی رونق ۔ برق: بجلی ۔ حاصل: فصل، پیدوار
مطلب: اے میرے محبوب اگر تجھے ایک محفل تصور کر لیا جائے تو اس محفل کی رونق یقیناً میرے دم سے ہے ۔ اگر تجھے بجلی سمجھ لیا جائے تو میری ذات ایک بلب کی مانند ہے جو اس کی بجلی سے جلتا رہتا ہے ۔

 
تو سحر ہے تو مرے اشک ہیں شبنم تیری
شامِ غربت ہوں اگر میں تو شفق تو میری

معانی:اشک: آنسو ۔ غربت: پردیس ۔ شفق: آسمان پر صبح اور شام پھیلنے والی سرخی ۔
مطلب: اگر تجھے صبح کا وقت سمجھ لیا جائے تو میرے آنسو اس لمحے تیرے لیے شبنم کی مانند ہوں گے ۔ اس عالم غربت میں اگر میں شام کی حیثیت رکھتا ہوں تو تیرا وجود عملاً شفق کی طرح سے ہے ۔

 
میرے دل میں تری زلفوں کی پریشانی ہے
تیری تصویر سے پیدا مری حیرانی ہے
حُسن کامل ہے ترا، عشق ہے کامل میرا

مطلب: تیری منتشر زلفوں کی طرح میرا دل بھی مضطرب و پریشان رہتا ہے اور جب تیری تصویر کو دیکھتا ہوں تو اس میں بھی مجھے اپنی ہی کیفیت نظر آتی ہے ۔ چنانچہ اگر تو اپنے حسن کو کامل سمجھتا ہے تو جان لے کہ میرا عشق بھی کامل ہے ۔

 
ہے مرے باغِ سخن کے لیے تو بادِ بہار
میرے بیتاب تخیل کو دیا تو نے قرار

معانی: باغِ سخن: شاعری کا باغ یعنی شاعری ۔ بادِ بہار: موسم بہار کی ہوا ۔ بیتاب: بے چین ۔ تخیل: خیال کی قوت ۔
مطلب: اے محبوب میری شاعری کے گلستان میں تیرا وجود موسم بہار کی ہوا کے مانند ہے ۔ میرے تخیل میں جو بے چینی اور اضطراب تھا تیرے سبب اس میں ٹھہراوَ اور توازن پیدا ہوا ۔

 
جب سے آباد ترا عشق ہوا سینے میں
نئے جوہر ہوئے پیدا مرے آئینے میں

معانی: جوہر: آئینے کی چمک دمک ۔
مطلب: جب سے تیرا عشق میرے دل میں جاں گزین ہوا ہے اس دم سے میرے فن میں بھی نئی تخلیقی صلاحیتیں رونما ہونے لگی ہیں ۔

 
حُسن سے عشق کی فطرت کو ہے تحریکِ کمال
تجھ سے سرسبز ہوئے میری امیدوں کے نہال
قافلہ ہو گیا آسودہَِ منزل میرا

معانی: آسودہَ منزل: اپنے ٹھکانے پر آرام سے پہنچ جانے والا ۔
مطلب: مجھے اس حقیقت کا ادراک بھی ہوا کہ حسن کے بغیر عشق کی تکمیل کا کوئی امکان نہیں ہوتا ۔ تیرے سبب ہی میری آرزووَں اور امیدوں کو فروغ ملا ۔ چنانچہ تجھے پاتے ہی میرا قافلہ منزل تک رسائی میں کامیاب ہو گیا ۔