Please wait..

آفتاب
(ترجمہ گایتری)

 
اے آفتاب! رُوح و روانِ جہاں ہے تو
شیرازہ بندِ دفترِ کون و مکاں ہے تو

معانی: گایتری: ہندووَں کی مقدس کتاب رگ وید کا ایک بہت قدیم اور مشہور منتر ۔ روح و رواں : مراد جس پر انسانی زندگی کا دارومدارہو ۔ شیرازہ بند: مراد کائنات کے انتظام کو مضبوط بنانے والا ۔ دفتر کون و مکاں : مراد یہ کائنات جس کے مختلف رنگ ہیں ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال نے سنسکرت زبان سے گایتری منتر کا آزاد ترجمہ کیا ہے ۔ واضح رہے کہ گایتری منتر کو اہل ہنود رگ وید کی روح سمجھتے ہیں ۔ عالم نزع میں اس منتر کا جاپ کیا جاتا ہے ۔ اقبال کہتے ہیں کہ اس منتر کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل سنسکرت میں لفظ سوتر استعمال کیا گیا ہے جس کے لیے اردو لفظ نہ ملنے کے باعث ہم نے لفظ آفتاب رکھا ہے ۔ لیکن اصل میں اسی آفتاب سے مراد اس افتاب سے ہے جو فوق المحسوسات ہے اور جس سے مادی آٖفتاب کسب ضیا کرتا ہے ۔ اکثر قدیم قوموں نے نیز صوفیا نے اللہ کی ہستی کو نور سے تعبیر کیا ہے ۔ قرآن شریف میں آیا ہے ۔ اللہ نور السمٰوات والارض ۔ اس نظم میں اقبال آفتاب سے یوں مخاطب ہیں کہ تو ہی ہے جو اس جہاں کی روح رواں ہے اور تیرے ہی دم سے اس کائنات کا نظام قائم و دائم ہے ۔ تو نہ ہوتا تو یہ نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے

 
باعث ہے تو وجود و عدم کی نمود کا
ہے سبز تیرے دم سے چمن ہست و بود کا

معانی: باعث: وجہ ۔ نمود: ظاہر ہونے کی حالت ۔ ہست و بود: کائنات، دنیا ۔
مطلب: یہاں موت اور زندگی کا جو سلسلہ ہے اس کا اظہار تیرے ہی دم سے ہوتا ہے یہی نہیں بلکہ اس دنیا میں جو رونق اور چہل پہل ہے وہ بھی تجھ سے ہے ۔

 
قائم یہ عنصروں کا تماشا تجھی سے ہے
ہر شے میں زندگی کا تقاضا تجھی سے ہے

معانی: تقاضا: صلاحیت، اہلیت ۔
مطلب: اے آٖفتاب! ّآگ، پانی، مٹی اور ہوا چاروں عناصر کے مابین جو ربط اور شیرازہ بندی ہے اس کی بنیاد بھی توہی ہے ۔ مزید براں کائنات میں جو بھی جاندار اشیاَ موجود ہیں ان میں زندگی کی لہر تیرے ہی دم سے دوڑتی ہے ۔

 
ہر شے کو تیری جلوہ گری سے ثبات ہے
تیرا یہ سوز و ساز سراپا حیات ہے

معانی: جلوہ گری: ظاہر ہونے کی کیفیت ۔ ثبات: مراد زندگی ۔ سوز و ساز: مرا تپش اور گرمی ۔
مطلب: عالم رنگ و بو میں جو چیز بھی نظر آتی ہے اس کا وجود تیرے سبب سے ہی قائم ہے ۔ تیری شہادت کے بغیر یہ چیزیں بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں ۔ خود تیرے وجود میں جو روشنی اور حرارت ہے وہی ان اشیاَ کے لیے حیات کا سبب ہے ۔ ٍ

 
وہ آفتاب جس سے زمانے میں نور ہے
دل ہے، خرد ہے، روحِ رواں ہے، شعور ہے

معانی: شعور: سوجھ بوجھ کی روشنی ۔
مطلب: تیرے وجود سے ہی پوری کائنات روشن اور منور رہتی ہے اور اسی روشنی کے سبب دل، عقل اور روح مسرور و شادمان رہتے ہیں ۔

 
اے آفتاب! ہم کو ضیائے شعور دے
چشمِ خرد کو اپنی تجلی سے نور دے

مطلب: اس شعر میں اقبال ایک دوسرے انداز سے آفتاب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمیں بھی اپنے نور سے خرد اور شعور کی روشنی عطا کر اور اسی نور سے ہماری عقل اور خرد کو بھی منور کر دے ۔

 
ہے محفلِ وجود کا ساماں طراز تو
یزدانِ ساکنانِ نشیب و فراز تو

معانی: محفلِ وجود: مراد کائنات ۔ ساماں طراز: مراد انتظام، بندوبست کرنے والا ۔ یزداں : اچھائیوں کا خدا ۔ نشیب و فراز: مراد زمین اور اوپر کی دنیا ۔
مطلب: اس دنیا میں نظم پیدا کرنے والی ذات تیری ہے یہی نہیں بلکہ یہاں جو بھی ادنیٰ و اعلیٰ ہے، چھوٹا بڑا ہے اس کی تخلیق تیرے ہی دم سے ہے ۔

 
تیرا کمال ہستی ہر جان دار میں
تیری نمود سلسہَ کوہسار میں

معانی: ہستی: زندگی ۔ سلسہَ کوہسار: پہاڑوں کی قطار ۔
مطلب: کائنات کی ہر شے تیرے کمال فن کی آئینہ دار ہے یہاں تک کہ پہاڑوں کے جو سلسلے ہیں وہ بھی تیرے فن کا شاہکار ہیں ۔

 
ہر چیز کی حیات کا پروردگار تو
زائیدگانِ نور کا ہے تاجدار تو

معانی: پروردگار: پالنے والا ۔ زائیدگانِ نور: نور، روشنی سے پیدا ہونے والے ۔
مطلب: اے آفتاب! تو تو ہر چیز میں موجود زندگی کا خالق ہے اور دنیا میں جتنی بھی روشن و منور چیزیں ہیں ان کا سرتاج بھی تو ہی ہے ۔

 
نے ابتدا کوئی نہ کوئی انتہا تری
آزاد قیدِ اول و آخر ضیا تری

معانی: قید اول و آخر: یعنی ابتدا اور انتہا کی پابندی ۔
مطلب: کوئی بھی نہیں جانتا کہ تیری ابتدا و انتہا کیا ہے ۔ تیرا نور تو ان حدود سے قطعی آزاد ہے جن کا تعلق ازل اور ابد سے ہے ۔ یہ امر پہلے ہی واضح کر دیا گیا ہے کہ گایتری کے مطابق اس نور (آفتاب) سے مراد خالق کون و مکاں ہے ۔