چاند
اے چاند حُسن تیرا فطرت کی آبرو ہے طوفِ حریمِ خاکی تیری قدیم خو ہے
معانی: طوف: چکر لگانا ۔ حریم خاکی: مراد کرہَ ارض ۔ قدیم خو: پرانی عادت ۔
مطلب: اے چاند! اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ تیرا حسن اوج کمال پر ہے اور یہ حسن عملاً ایسا بلند مرتبہ ہے جس پر فطرت فخر و ناز کر سکتی ہے ۔
یہ داغ سا جو تیرے سینے میں ہے نمایاں عاشق ہے تو کسی کا، یہ داغِ آرزو ہے
معانی: کسی کا: محبوب حقیقی، خدا کا ۔ داغ: دھبا(جو چاند میں نظر آتا ہے) ۔ داغِ آرزو: مراد عشق کا زخم ۔
مطلب: تیرے سینے پر جو داغ نظر آتا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ تیرے سینے کا یہ داغ کسی کی چاہت اور آرزو کا مظہر ہے ۔ اور یہ بھی کہ میری طرح تو بھی کسی کے عشق میں مبتلا ہے ۔
میں مضطرب ز میں پر، بیتاب تو فلک پر تجھ کو بھی جستجو ہے، مجھ کو بھی جستجو ہے
معانی: جستجو: تلاش ۔
مطلب: بس اتنا فرق ہے کہ میں زمین کا باسی ہونے کے ناطے یہاں مضطرب اور بے چین ہوں اور تو چونکہ آسمان پر رہتا ہے اس لیے تو وہاں پر بے چین اور مضطرب ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کہ تجھے بھی کسی کی تلاش ہے اور میں بھی کسی کو پا لینے کا آرزو مند ہوں ۔
انساں ہے شمع جس کی، محفل وہی ہے تیری میں جس طرف رواں ہوں ، منزل وہی ہے تیری
معانی: محفل: خدا کی معرفت کی جگہ ۔ رواں ہوں : چل رہا ہوں ۔
مطلب: لگتا ہے کہ انسان جس محفل کے لیے شمع کی حیثیت رکھتا ہے وہی تیری محفل ہے اور میں جس جانب عازم سفر ہوں وہی تیری بھی منزل ہے ۔
تو ڈھونڈتا ہے جس کو تاروں کی خامشی میں پوشیدہ ہے وہ شاید غوغائے زندگی میں
معانی: پوشیدہ:چھپا ہوا ۔ غوغائے زندگی: مراد دنیا کی رونق، چہل پہل، ہنگامے ۔
مطلب: اے چاند! یوں لگتا ہے کہ تو جس کو تاروں کے سکوت میں تلاش کر رہا ہے وہ غالباً یہاں کرہَ ارض پر زندگی کے شور اور ہنگاموں میں چھپی ہوئی ہے ۔
اِستادہ سرو میں ہے، سبزہ میں سو رہا ہے بلبل میں نغمہ زن ہے، خاموش ہے کلی میں
معانی: اِستادہ: ایستادہ کھڑا ہوا ۔ سرو: وہ لمبا درخت جو سیدھا کھڑا ہوتا ہے ۔ سبزے میں سو رہا ہے: سبزہ زمین پر اس طرح ہوتا ہے جیسے وہ سو رہا ہو ۔ نغمہ زن: چہچہانے والا ۔
مطلب: اس امر کی توجیہہ کچھ یوں ہے کہ وہ چیز کہیں سرو کے درخت میں ایستادہ ہے اور کہیں یہ سرسبز و شاداب سبزے میں موجود ہے ۔ پھر یوں بھی ہے کہ کہیں اس شے کا وجود بلبل میں نغمے کی شکل میں جلوہ گر ہے جب کہ کلی کے بطن میں سکوت بن کر چھپا ہوا ہے ۔
آ میں تجھے دکھاؤں رُخسارِ روشن اس کا نہروں کے آئینے میں ، شبنم کی آرسی میں
معانی: رخسارِ روشن: چمکدار چہرہ ۔ آرسی: انگوٹھے میں پہننے والا چھوٹا سا زیور جس میں آئینہ بھی لگا ہوتا ہے ۔
مطلب: سو اے چاند ! میرے پاس آ کہ میں تجھے اس حسن کے جلووں سے روشناس کراؤں ۔ دیکھ تو سہی! یہ جلوہ ندیوں کے شفاف پانی میں بھی موجود ہے اور شبنم کے قطروں میں بھی نمایاں ہے ۔
صحرا و دشت و در میں ، کہسار میں وہی ہے انساں کے دل میں ، تیرے رُخسار میں وہی ہے
معانی: دشت و در: جنگل اور بیابان ۔ وہی: یعنی خدا تعالیٰ ۔
مطلب: چنانچہ یہی نہیں بلکہ اس حسن کا جلوہ تو صحراؤں اور کہساروں میں بھی پوری طرح سے موجود ہے ۔ انسان کے دل میں بھی ہے اور تیرے چہرے میں بھی یہی جلوہ نظر آتا ہے ۔