فراق
تلاشِ گوشہَ عزلت میں پھر رہا ہوں میں یہاں پہاڑ کے دامن میں آ چھپا ہوں میں
معانی: گوشہَ عزلت: تنہائی کا کونا ۔ دامن: وادی ۔
مطلب: اس نظم میں اقبال اپنے محبوب سے ہجر و فراق کے لمحات میں اپنی نفسیاتی کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میری بے چینی اور اضطراب کا یہ عالم ہے کہ ایسے مقام پر جہاں تنہائی نصیب ہو سکے اس کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہوں ۔ چنانچہ اسی تلاش کے سبب مجھے ایک پہاڑ کے دامن میں پناہ لینا نصیب ہوا ہے یعنی تنہائی کی تلاش پہاڑ کے دامن تک لے آئی ہے ۔
شکستہ گیت میں چشموں کے دلبری ہے کمال دعائے طفلکِ گفتار آزما کی مثال
معانی: طفلکِ گفتار آزما: وہ معصوم بچہ جو ابھی باتیں کرنا سیکھ رہا ہو ۔ مثال: طرح، مانند ۔
مطلب: یہاں پہاڑ سے نکلنے والے چشموں کی روانی سے اپنے نغمے پھوٹ رہے ہیں جو دلکشی اور محبوبیت کے حامل ہیں ۔ یہ نغمات اس بچے کی آواز کے مانند ہیں جو اپنی توتلی زبان میں بولنے کی کوشش کر رہا ہو ۔
ہے تختِ لعلِ شفق پر جلوسِ اخترِ شام بہشت دیدہَ بینا ہے حُسنِ منظرِ شام
معانی: تختِ لعلِ شفق: دن اور شام کے وقت آسمان پر پھیلنے والی سرخی کو سرخ تخت کہا ۔ جلو: مراد تخت پر بیٹھنا ۔ اختر: ستارہ ۔ بہشت دیدہَ بینا: ظاہری آنکھ کے لیے بہشت کی مانند ۔ حسنِ منظرِ شام: شام کے وقت کا خوبصورت نظارہ ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ اس لمحے پہاڑ کے دامن سے بوقت شام سورج غروب ہونے کے عمل میں ہے اور اس کے سبب جو شفق پھوٹی ہے اس کے پس منظر میں شام کا ستارہ اپنی پناہ گاہ سے برآمد ہو رہا ہے ۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ خوبصورت منظر بہشت کے مناظر کی طرح حسن و جمال سے ہم آہنگ ہے ۔
سکوتِ شام جدائی ہوا بہانہ مجھے کسی کی یاد نے سکھلا دیا ترانہ مجھے
معانی: شام جدائی: محبوب سے دوری کی شام ۔ ترانہ سکھانا: گانا سکھانا ۔
مطلب: محبوب کے ہجر و فراق میں شام کے وقت کا سکوت اور تنہائی میرے لیے ایک بہانہ ثابت ہو رہے ہیں کہ اپنے محبوب کی یاد میں نغمے گاؤں ۔
یہ کیفیت ہے مری جانِ ناشکیبا کی مری مثال ہے طفلِ صغیرِ تنہا کی
معانی: کیفیت: حالت ۔ ناشکیبا: بے چین، بیقرار ۔ طفلِ صغیر: چھوٹا معصوم بچہ ۔
مطلب: میری مضطرب، بے چین اور بے صبر روح کی حالت محبوب کی جدائی میں اس ننھے بچے کی مانند ہے جو کچھ بولنے کی کوشش میں غوں غاں کرتا رہتا ہے ۔
اندھیری رات میں کرتا ہے وہ سرود آغاز صدا کو اپنی سمجھتا ہے غیر کی آواز
مطلب: اس سے جو آہنگ پیدا ہوتا ہے اس کو کسی دوسرے شخص کی آواز سمجھ کر مسرت و خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کلکاریاں مارتا ہے ۔
یونہی میں دل کو پیامِ شکیب دیتا ہوں شبِ فراق کو گویا فریب دیتا ہوں
معانی: پیامِ شکیب: صبر، قرار کا پیغام ۔ شبِ فراق: جدائی کی رات ۔ گویا: جیسے ۔ فریب دینا: دھوکا دینا ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ اس تنہائی میں میں بھی اس ننھے بچے کی طرح اپنے دل کو تسلی دینے کی کوشش کر رہا ہوں اور نغمے گا گا کر ہجر و فراق کی رات کو فریب دینے کی سعی میں ہمہ تن مصروف ہوں ۔ مراد یہ ہے کہ محبوب سے جدائی اور فراق کی گھڑیاں ایک عاشق کے لیے اس قدر کرب آمیز اور جانگسل ہوتی ہیں کہ وہ تمام ہنگامہ ہاوَ ہو کو ترک کر کے کوئی ایسا گوشہ تنہائی تلاش کرتا ہے جہاں فراق کے اس کرب سے نجات حاصل ہو سکے وہاں وہ اپنی دھن میں اسی طرح ہجر و فراق کے نغمے گا کر خود کو اس طرح سے فریب دیتا ہے جیسے ایک ننھا بچہ اپنی غوں غاں کو دوسرے کی آواز جان کر خوش ہوتا ہے ۔