Please wait..

رباعی (6)

 
یقین مثلِ خلیل آتش نشینی
یقین اللہ مستی، خود گزینی
 
سُن اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار
غلامی سے ابتر ہے بے یقینی

معانی: خود گزینی: اپنے آپ کو چننا، اختیار کرنا اپنی ذات کی حقیقت سمجھ کر اس پر پختہ ہو جانا ۔
مطلب: اس رباعی میں علامہ نے یقین کامل کی ماہیت بیان کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ چند سوال اٹھائے ہیں بلکہ ساتھ ہی ان کے جوابات مختصر اور جامع انداز میں پیش کئے ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ جب ہم سوچتے ہیں کہ یقین کامل کیا ہے تو اس کا بڑا آسان اور مثبت جواب پیغمبر برحق حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے عمل میں مل جاتا ہے کہ بے دھڑک انجام کی پروا کئے بغیر آتش نمرود میں کود پڑے تھے ۔ اقبال نے خود ایک دوسرے مقام پر اسی مضمون کے حوالے سے کہا ہے ، بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق ۔ آگے چل کر فرماتے ہیں کہ یقین عشق خداوندی اور اس کی مستی میں چور ہونے کا نام بھی ہے ۔ چنانچہ اے تہذیب حاضر کے سحر میں گرفتار شخص سن کہ بے یقینی کو دیکھا جائے تو وہ غلامی سے زیادہ بدتر شے ہے ۔

رباعی (7)

 
عرب کے سوز میں سازِ عجم ہے
حرم کا راز توحیدِ امم ہے
 
تہی وحدت سے ہے اندیشہَ غرب
کہ تہذیبِ فرنگی بے حرم ہے

مطلب: حضور سرور دوعالم ﷺ کی ذات والا صفات نے دنیائے عرب کو اس سوز عشق سے بہرہ ور کیا جس میں عجم کی نغمگی بھی شامل تھی یہی سوز عشق ساری کائنات کے لیے بہبودی اور بہتری کے ساتھ مینارہ نور کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس کے ساتھ کعبۃ اللہ بھی قوموں میں وحدت کی علامت بن گیا ۔ تہذیب مغرب کے پاس چونکہ کعبہ جیسا کوئی مرکزی ادارہ نہیں ۔ اس لیے وہاں وحدت کا تصور ہی بے معنی شے ہے ۔

رباعی (8)

 
کوئی دیکھے تو میری نے نوازی
نفس ہندی، مقام نغمہ تازی


 
نگہ آلودہ انداز افرنگ
طبیعت غزنوی، قسمت ایازی

مطلب: یہ انتہائی مختصر انداز میں اقبال کی سیرت و کردار کا تجزیہ کرتی ہے ۔ امر واقع یہ ہے کہ اپنی ذاتی خصوصیات کا بیان عام طور پر خودستائی سے محمول کیا جاتا ہے ۔ کہیں علامہ اقبال نے انتہائی بے نیازی کے ساتھ اس پورے عمل کو ان چار مصرعوں میں پیش کیا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ اگر میری نغمہ سرائی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ نفس ہندی کے ساتھ نغمے میں عرب کی حلاوت شامل ہے ۔ اسی مضمون کو علامہ نے ایک اور مقام پر یوں کہا ہے کہ نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے مری ۔ چنانچہ آگے چل کر کہتے ہیں کہ مغرب کے جلووں سے آلودہ ہے ۔ ہر چند کہ قسمت میں ایاز کے مانند غلامی لکھی ہے ۔ اس کے برعکس فطرت سلطان محمود غزنوی سے ملتی جلتی ہے ۔

رباعی (9)

 
ہر اک ذرہ میں ہے شاید مکیں دل
اسی جلوت میں ہے خلوت نشیں دل
 
اسیرِ دوش و فردا ہے و لیکن
غلامِ گردشِ دوراں نہیں دل

مطلب: یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہر ذرے کے پہلو میں بھی دل موجود ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ہر نوع کی جلوت میں ہی وہ خلوت کے مزے لے رہا ہے ۔ اگرچہ دل ماضی اور مستقبل کی حدود کا پابند ہے اس کے باوجود وہ زمانے کی گردش کا غلام نہیں بلکہ عملاً آزادی اس کا محور ہے ۔

رباعی (10)

 
ترا اندیشہ افلاکی نہیں ہے
تری پرواز لولاکی نہیں ہے


 
یہ مانا اصل شاہینی ہے تیری
تری آنکھوں میں بیباکی نہیں ہے

مطلب: فرماتے ہیں کہ اے مسلمان! تیرے خیالات میں بلندی اور پاکیزگی نہیں ۔ نا ہی تجھ میں وہ رفعت ہے جو حضور اکرم ﷺ سے محبت کرنے والے میں ہونی چاہیے ۔ اس میں شک نہیں کہ تو بظاہر شاہیں صفت ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں وہ بیباکی اور تڑپ نہیں جو شہباز میں ہوتی ہے ۔