Please wait..

ملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض
(۷)

 
نکل کر خانقاہوں سے اَدا کر رسمِ شبیری
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری

معانی: خانقاہ: درویشوں کے رہنے کی جگہ جہاں لوگوں کی روحانی تربیت کی جاتی ہے ۔ شبیر: حضرت محمد مصطفیﷺ کے چھوٹے نواسے کا نام حضرت امام حسین ۔ رسم شبیری: جو رسم حضرت امام حسین نے کربلا میں ادا کی اور باطل کے مقابلے میں ڈٹ گئے ۔ فقر خانقاہی: خانقاہ تک محدود فقیری، جو عملی دنیا سے بے گانہ ہو ۔ اندوہ: رنگ ، ملال ۔ دلگیری: صدمہ، دل پر صدمہ اور رنج کی کیفیت ۔ فقط: صرف ۔
مطلب: علامہ عہد حاضر کے ان فقیروں ، درویشوں اور صوفیوں کو جنھوں نے اپنے آپ کو اپنی خانقاہوں تک محدود کر رکھا ہے اور عملی دنیا سے کوئی سروکار نہیں رکھتے کہا ہے کہ تمہاری یہ خانقاہی زندگی رہبانیت کے برابر ہے ۔ تم اپنی خانقاہوں سے نکلو اور عملی میدان میں آ کر امت مسلمہ کے مسائل کا حل تلاش کرو ۔ ان کو غلامی کی زنجیریں کاٹنے کا مشورہ بھی دو اور اسکے کاٹنے میں ان کی مدد بھی کرو ۔ ان کو جابر طاقتوں کے سامنے سرا ٹھانے کے لیے بھی کہو اور خود بھی اس عمل میں حصہ لو ۔ جس طرح حضرت امام حسین نے اپنے وقت کے جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہا تھا اور حق کی سربلندی کے لیے کربلا کے میدان میں اپنی، اپنے رفقائے کار اور اہل خاندان کی جانیں قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا تھا تم بھی ان کے نقش قدم پر چل کر وقت کے طاغوتی اور جابر قوتوں کے خلاف محاذ قائم کرو چاہے اس میں جانیں بھی قربان کیوں نہ کرنی پڑیں ۔ اگر تم ایسا نہیں کرو گے اور خود کو خانقاہی رسوم اور عبادات کے ادا کرنے تک ہی محدود رکھو گے تو یاد رکھو تمہاری یہ زندگی رنج و ملال اور صدمہ و غم کی زندگی کے سوا کچھ نہیں ہو گی ۔ یہ رہبانیت کی زندگی ہو گی جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا ۔

 
ترے دین و ادب سے آ رہی ہے بوئے رہبانی
یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالمِ پیری

معانی: بوئے رہبانی: ترک دینا کی بو ۔ رہبانی: ترک دنیا ۔ امت: قوم ۔ عالم پیری: بڑھاپے کی حالت، اخیر عمر کا زمانہ ۔
مطلب: اے وہ صوفی جس نے خود کو عملی دنیا سے بے گانہ کر رکھا ہے تو جو مذہبی خیالات اور ادبی افکار پیش کر رہا ہے مجھے اس میں سے ترک دنیا اور بے عملی کی بو آ رہی ہے ۔ جب کسی قوم کی موت آئی ہوئی ہوتی ہے تو اس کا اور اس کے بزرگوں کا یہی حال ہوتا ہے جس طرح کسی شخص پر بڑھاپا آ جاتا ہے ۔ اور اس کی یہ اخیر عمر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اب وہ مرنے والا ہے اسی طرح اے صوفی تیری بے عملی اور ترک دنیا سکھانے والی زندگی اور خیالات اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ تو اور تیری قوم بھی مرنے کے قریب ہے ۔ خانقاہ کی محدود اور بے عمل زندگی کو چھوڑ کر خود بھی مرنے سے بچ اور اپنی قوم کو بھی مرنے سے بچا ۔ یہاں مرنے سے مراد بے حس ہونا، عمل سے بیگانہ ہونا، غلام بن کر زندگی بسر کرنا اور جبر و جور کی قوتوں کے آگے سر تسلیم خم کرنا وغیرہ سے ہے

 
شیاطینِ ملوکیت کی آنکھوں میں ہے وہ جادو
کہ خود نخچیر کے دل میں ہو پیدا ذوقِ نخچیری

معانی: شیاطین: شیطان کی جمع ۔ ملوکیت: بادشاہت، آقائیت ۔ نخچیر: شکار ۔ ذوق نخچیری: شکار ہو جانے کی لذت ۔
مطلب: ملوکیت کا نظام دنیا میں شیطان کا پیدا کردہ ہے اس نظام میں بادشاہ اور اسکو تقویت بخشنے اور خود کو اس کے سایہ میں محفوظ سمجھنے والی جاگیری، زمنیداری، وڈیرہ پن اور سرمایہ داری کی قوتیں سرگرم عمل ہو کر لوگوں کو اپنا محتاج، دست نگر اور غلام بنا لیتی ہیں ۔ یہ طبقے لوگوں کو اپنی غلامی پر رضامند اور خوش رکھنے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانوں اور مکر و فریب سے کام لیتے ہیں اور ان کی عزت و ناموس اور خودداری و خودگیری کی صلاحیتوں اور قوتوں کو اس اندازے سے سلا دیتے ہیں کہ وہ اس میں خوش نظر آتے ہیں ۔ علامہ نے اس کیفیت کو شکار اور شکاری کی علامتوں سے سمجھایا ہے اور بتایا ہے کہ ان شکاریوں کے پاس کچھ ایسا جادو ہوتا ہے کہ شکار خود شکار ہونے کے لیے تیار رہتا ہے اور اپنے شکار ہونے میں لذت محسوس کرتا ہے ۔

 
چہ بے پروا گزشتند از نوائے صبح گاہِ من
کہ برد آں شور و مستی از سیہَ چشمان کشمیری

مطلب: ملا زادہ ضیغم لولابی افسوس کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ان سیاہ آنکھوں والے کشمیریوں سے وہ دینی اور قومی جذبہ کون لے گیا کہ وہ میری صبح کی فریاد کو نظر انداز کر گئے اور کوئی پرواہ نہ کی ۔ یعنی میری صبح کے وقت کی آواز سے اہل کشمیر اس طرح بے پروا ہو کر گزرے ہیں کہ جیسے ان کی سیہ آنکھوں سے کوئی وہ شور و مستی لے گیا ہو جس سے وہ دوسروں پر جادو کر سکتے تھے ۔ مراد یہ ہے کہ یہی کشمیری جو آج غلامی اور بے بسی کی زندگی بسر کر رہے اور زندگی کے ہر شعبہ میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں کبھی آزاد تھے اور زندگی کے ہر شعبے میں نہ صرف سرفراز تھے بلکہ دوسرے بھی ان سے استفادہ کرتے تھے ۔

(۸)

 
سمجھا لہو کی بوند اگر تو اسے تو خیر
دل آدمی کا ہے فقط اک جذبہَ بلند

معانی: فقط: صرف ۔ جذبہ بلند: بلند جذبہ ۔
مطلب: اے کشمیر کے باشندے، اے مرد مسلمان اگر تو یہ سمجھتا ہے کہ دل ایک خون کو رواں رکھنے والا آلہ ہے اور لہو کی بوند ہے تو تو سمجھتا رہ مگر ایسا نہیں ہے تیرے سینے میں جو دل ہے وہ صرف خون کی ایک بوند کا نام ہے بلکہ اس کے اندر جو بلند جذبہ پیدا ہوتا ہے اس کا نام ہے ۔ دل کو گوشت کا لوتھڑا سمجھنا تیری ناسمجھی کی دلیل ہے ۔ دل دراصل ایک غیر مادی جوہر ہے ایک نورانی لطیفہ ہے تو دل کے گوشت کے لوتھڑے میں اس جوہر اور نورانی لطیفہ کو تلاش کر اور کسی مرد درویش کی صحبت میں جا کر اس سے اوراس کی تلاش کے فن سے آگاہی حاصل کر ۔ جب یہ نوانی لطیفہ والا دل تجھ میں پیدا ہو جائے گا تو کائنات تیرے آگے سر خم کرنے لگے گی ۔

 
گردش مہ و ستارہ کی ہے ناگوار اسے
دل آپ اپنے شام و سحر کا ہے نقشبند

معانی: گردش مہ و ستارہ: چاند اور ستارہ کی گردش ۔ ناگوار: ناپسند ۔ سحر: صبح ۔ نقشبند: نقش بنانے والا ۔
مطلب: ظاہری اور مادی دنیا میں صبح و شام کا آجا، موسموں کا بدلنا وغیرہ بے شک چاند ستاروں کی گردش سے ہوتا ہے لیکن روحانی دنیا ان قوانین قدرت کی پابند نہیں ہے اس کی اپنی دنیا ہے ۔ اس کے اپنے موسم اور اپنی صبح اور شا میں ہیں یہ سب کچھ انسانی دل اور اس کی ان کیفیتوں سے پیدا ہوتا ہے جو عاشق کی صحبت و نگاہ سے ابھرتی ہیں ۔ جس انسان کے سینے میں ایسا دل پیدا ہو جاتا ہے وہ مر کر بھی نہیں مرتا اورر وہ خدا کے سوا ہر چیز سے بے نیاز ہو کر زندگی گزارنے پر آمادہ رہتا ہے ۔ غلامی اور محتاجی اس کے پاس نہیں بھٹکتی ۔

 
جس خاک کے ضمیر میں ہے آتشِ چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند

معانی: خاک: مٹی ۔ ضمیر: دل ۔ آتش: آگ ۔ چنار: کشمیر کی وادی میں اگنے والے درخت جن کے پھول آگ کی طرح روشن ہوتے ہیں ۔ سرد ہو: ٹھنڈی ہو ۔ خاک ارجمند: مبار ک مٹی ۔
مطلب: جس مٹی میں ، جس انسانی جسم میں ایسا دل پیدا ہو جاتا ہے کہ اس میں چنار کے سرخ پھولوں کے رنگ کی سی حرارت اور تپش پیدا ہو چکی ہو اس دل کی آگ اس کے مبارک جسم میں کبھی ٹھنڈی نہیں ہو سکتی وہ دل اپنے اندر عشق کی ایسی آگ پیدا کر لیتا ہے جس کا کوئی دنیاوی لالچ، کوئی طاغوتی طاقت، کوئی جبر ، کوئی ظلم اور کوئی احتیاج اس سے نکال باہر نہیں کر سکتی ۔ اے چنار کے درختوں والی وادیوں اور پہاڑوں میں رہنے والے کشمیری اپنے اندر ایسا دل پیدا کر ۔