(29)
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر کرتے ہیں خطاب آخر، اٹھتے ہیں حجاب آخر
معانی: نالوں کا جواب: فریاد یا دعاؤں کا جواب ۔ خطاب: سامنے ہو کر گفتگو کرنا ۔ حجاب: پردہ ۔
مطلب: آسمانوں سے بالاخر بقول اقبال میری فریاد کا جواب آنے لگا ہے ۔ نور مطلق کے حجابات بھی اٹھنے لگے ہیں اور میرا محبوب مجھ سے مخاطب بھی ہونے لگا ہے ۔ یہ شعر فی الحقیقت معرفت الہٰی کا مظہر ہے ۔
احوالِ محبت میں کچھ فرق نہیں ایسا سوز و تب و تاب اول، سوز و تب و تاب آخر
معانی: احوال: کیفیتیں ۔ سوز: خلش، تپش، جلنا ۔ تب و تاب: عشق کے سبب بے قراری ۔
مطلب: دراصل اظہار محبت کے معاملات میں کچھ زیادہ فرق بھی نہیں ہے ۔ اس کے آغاز میں سوز و گداز اور اضطراب سے عاشق کو واسطہ پڑتا ہے اور اس کا انجام بھی انہی جذبوں پر ہوتا ہے ۔
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیرِ امم کیا ہے شمشیر و سناں اوّل، طاوَس و رباب آخر
معانی: تقدیر امم: قوموں کی تقدیر ۔ شمشیر و سناں : تلوار و نیزے ۔ طاوَس و رباب: باجا اور سارنگی مراد عیش و عشرت ۔
مطلب: میرے لیے یہ بتانا چنداں مشکل نہیں کہ قوموں کی تقدیر کس طرح عروج و زوال کے مراحل سے گزرتی ہے کہ ان کا عروج اس وقت تک قائم رہتا ہے کہ جب تک وہ ہتھیاروں سے مسلح ہو کر دشمن سے میدان جنگ میں نبرد آزما رہتی ہیں ۔ بالفاظ دگر عملی جدوجہد میں مصروف رہتی ہیں اور ان مراحل سے گزرنے کے بعد جب وہ عیش و عشرت اور راگ و رنگ میں مصروف ہو جائیں تو یہ سمجھ لو کہ ان کا زوال شروع ہو گیا ۔
میخانہَ یورپ کے دستور نرالے ہیں لاتے ہیں سُرور اوّل، دیتے ہیں شراب آخر
مطلب: اس شعر میں اقبال نے غیر ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ یورپ کے طرز عمل اور اس کی نفسیات سے آگاہ کیا ہے کہ یہاں کے استعمار پسند طبقے ضرورت مند ممالک کو پہلے ہمدردی اور دولت کی جھلکیاں دکھاتے ہیں اس کے بعد اپنے مفاد کی تکمیل کے لیے کچھ مادی امداد بھی فراہم کر دیتے ہیں تا کہ ان پر تسلط برقرار رہے ۔ مراد یہ کہ پہلے تو ترقی پذیر قوموں کو حرص و ہوس کے دام میں پھنساتے ہیں اس کے بعد دکھاوے کے لیے کچھ مدد بھی کر دیتے ہیں ۔
کیا دبدبہَ نادر، کیا شوکتِ تیموری ہو جاتے ہیں سب دفتر غرقِ مئے ناب آخر
معانی: دبدبہَ نادر: نادر بادشاہ کا رعب ۔ شوکتِ تیموری: مغلیہ خاندان کی شان و شوکت ۔ دفتر: کتاب ۔ غرق مئے ناب: خالص شراب میں غرق مراد یہ ہے کہ شراب نے عام لوگوں کو کیا بادشاہوں اور حکمرانوں کو بھی آخر کار تباہ و برباد کر دیا ۔
مطلب: نادر شاہ اور تیمور جیسے حکمرانوں کے دبدبے اور شوکت و بالاخر شراب و کباب نے تباہ کر کے رکھ دیا مراد یہ ہے کہ جب تک حکمران باعمل اور جدوجہد میں مصروف رہتے ان کے عروج کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ لیکن جب عیش و عشرت میں پڑ گئے تو پھر یہ عروج ، زوال میں تبدیل ہو کر رہ جاتا ہے ۔ نادر شاہ اور تیمور دونوں کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔
خلوت کی گھڑی گزری، جلوت کی گھڑی آئی چُھٹنے کو ہے بجلی سے آغوشِ سحاب آخر
معانی: جلوت: محفل، آشکار ہونا ۔ آغوشِ سحاب: بادل کی گود ۔
مطلب: اب وہ مرحلہ آ گیا ہے کہ محبوب حجاب سے نکل کر عام سطح پر جلوہ گر ہو نے والا ہے ۔ بالکل اسی طرح کہ برق بادلوں میں چھپی رہتی ہے تو اس کا پتہ نہیں چلتا لیکن بادلوں سے نکل کر اس کی چمک ماحول کو خیرہ کر دیتی ہے ۔
تھا ضبط بہت مشکل اس سیلِ معانی کا کہہ ڈالے قلندر نے اسرارِ کتاب آخر
معانی: سیلِ معانی: معنی کی بے پناہ وسعت ۔ ضبط: روکنا ۔ قلندر: یعنی درویش، خود اقبال ۔ اسرار کتاب: کتاب کے راز ۔
مطلب: نظم کے اس آخری شعر میں اقبال خود کو قلندر سے منسوب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے لیے اب ضبط کرنا مشکل ہو گیا اس لیے میں نے قرآن پاک کے اسرار ورموز اپنے اشعار میں بیان کر دیئے ہیں ۔