Please wait..

چاند اور تارے

 
ڈرتے ڈرتے دمِ سحر سے
تارے کہنے لگے قمر سے

معانی: دم سحر: صبح کی پھونک ۔ فلک: آسمان ۔
مطلب: طلوع سحر کے خدشے کے پیش نظر ستارے، چاند سے پوچھتے ہیں کہ ۔

 
نظارے رہے وہی فلک پر
ہم تھک بھی گئے چمک چمک کر

مطلب: یہ تو بتا کہ ہم جو چمک چمک کر تھک چکے ہیں اس کے باوجود آسمان کے نظاروں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔

 
کام اپنا ہے صبح و شام چلنا
چلنا، چلنا، مدام چلنا

معانی: مدام: ہمیشہ ۔
مطلب: ہم جانتے ہیں کہ ہمارا کام تو صبح و شام گردش میں ہی رہنا ہے اور یہ سلسلہ نہ جانے کب تک جاری رہے گا ۔

 
بیتاب ہے اس جہاں کی ہر شے
کہتے ہیں جسے سکوں ، نہیں ہے

مطلب: اے چاند! اتنا بتا دے کہ اس عالم رنگ و بو کی ہر شے تغیر سے کیوں دوچار ہے ۔ ان کے اضطراب میں کمی کیوں نہیں جسے سکون کہا جاتا ہے ۔ یہاں اس کو آنکھیں ترستی ہیں ۔

 
رہتے ہیں ستم کشِ سفر سب
تارے، انساں ، شجر، حجر، سب

معانی: ستم کشِ سفر: چلتے رہنے کی سختیاں سہنے والے ۔ شجر: درخت ۔ حجر: پتھر ۔
مطلب: یہاں تو ہر جانب سب لوگ سفر میں مبتلا رہتے ہیں ۔ ہماری بات تو الگ رہی یہ انسان، درخت اور پتھر سب ہی سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے رہتے ہیں ۔

 
ہو گا کبھی ختم یہ سفر کیا
منزل کبھی آئے گی نظر کیا

مطلب:آخر اتنا تو ہمیں پتہ چلے کہ یہ سفر کبھی اور کسی مرحلے پر جا کر ختم بھی ہو گا اور کبھی ہم اپنی منزل مقصود کو بھی دیکھ سکیں گے یا نہیں ۔ مراد یہ ہے کہ ستاروں کے الفاظ میں اس کائنات کی ہر شے تغیر پذیر ہے کسی کو بھی سکون حاصل نہیں ! سفر جاری ہے اور منزل ناپید ۔

 
کہنے لگا چاند، ہم نشینو
اے مزرعِ شب کے خوشہ چینو

معانی: ہم نشینو: جمع ہم نشیں ، ساتھیو ۔ مزرع شب: رات کی کھیتی، فصل ۔ خوشہ چینو: جمع خوشہ چین، فصل کٹنے کے بعد گرے ہوئے دانے اٹھانے والو ۔
مطلب: اس شعر میں چاند جو بڑی خامشی کے ساتھ ستاروں کی باتیں سن رہا تھا گویا ہوا کہ اے ہم نشینو! بے شک تم نے رات کی کھیتی سے فیض حاصل تو کیا لیکن میری بات غور سے سنو ۔

 
جنبش سے ہے زندگی جہاں کی
یہ رسمِ قدیم ہے یہاں کی

معانی: جنبش: حرکت ۔ رسمِ قدیم: پرانا دستور، طور طریقہ ۔
مطلب: کہ اس کائنات کا وجود تغیر اور حرکت میں ہی پوشیدہ ہے کہ یہی اس جہان کا قدیم اصول ہے ۔

 
ہے دوڑتا اشہبِ زمانہ
کھا کھا کے طلب کا تازیانہ

معانی: اشہب: گھوڑا ۔ طلب: خواہش ۔ تازیانہ: چابک ۔
مطلب: اس زمانے کو اگر گھوڑے سے تشبیہ دی جائے تو یوں سمجھو کہ گھوڑا خواہش کے چابک کھا کھا کر دوڑتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ ضرورت عملاً زمانے کو حرکت میں رکھتی ہے ۔ یہی اصول ازل سے چلا آ رہا ہے ۔

 
اس رہ میں مقام، بے محل ہے
پوشیدہ قرار میں اجل ہے

معانی: مقام: ٹھہرنا، رکنا ۔ بے محل: بے موقع، وقت ۔ قرار: ٹھہراوَ ۔ اجل: موت ۔
مطلب : چنانچہ منزل تک پہنچنے کے لیے جو مسافت مقرر ہے اس میں ٹھہرنے کا عمل بے موقعہ اور قطعی نامناسب ہے ۔ اس لیے کہ کسی مقام پر ٹھہرے تو یوں سمجھ لو کہ مارے گئے ۔ یعنی دوران سفر کہیں رکنا موت سے ہم کنار ہونے کے مترادف ہے ۔

 
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا، کچل گئے ہیں

معانی: چلنے والے: مراد حرکت میں رہنے ، عمل کرنے والے ۔ کچل جانا: پس جانا ۔
مطلب: جو لوگ عازم سفر اور حرکت میں رہتے ہیں اور منزل کا تعین کر لیتے ہیں وہ ہمیشہ کامیاب و کامران رہتے ہیں اس کے برعکس جو مسافر راہ میں دم لینے کے لیے رک گئے انہیں عقب سے آنے والے روند کر آگے بڑھ جاتے ہیں ۔ چنانچہ حرکت اور روانی ہی ہر شے کو بناتی سنوارتی ہے ۔

 
انجام ہے اس خرام کا حُسن
آغاز ہے عشق، انتہا حسن

معانی: خرام: ٹہلنا، چلنا ۔ آغاز: شروع ۔ انتہا: اخیر، انجام ۔
مطلب: اسی عمل کو حسن سے تعبیر کیا جا سکتا ہے کائنات کی جملہ اشیا ء عشق کی بدولت حرکت میں رہتی ہیں اور آخر میں سنور کر حسن کا روپ دھار لیتی ہیں ۔