شیکسپئیر
شفقِ صبح کو دریا کا خرام آئینہ نغمہَ شام کو خاموشیِ شام آئینہ
معانی: شیکسپیئر : ولیم شیکسپیئر ، انگریزی زبان کا مشہور ترین ڈرامہ نگار اور شاعر ۔ شفق: سرخی ۔ خرام: چلنا، بہنا ۔ آئینہ: یعنی پانی میں آسمانی سرخی نظر آتی ہے ۔ نغمہَ شام: شام کا ترانہ، یعنی شام ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ علی الصبح جب شفق پھوٹتی ہے اور اس کا سرخ عکس بہتے دریا پر پڑتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ شفق کے لیے دریا کا شفاف رواں پانی آئینے کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اسی طرح شام کے وقت نغمہ ریزی کے لیے اس لمحے کا سکوت آئینے کا کام دیتا ہے
برگِ گل آئینہ عارضِ زیبائے بہار شاہدِ مے کے لیے حجلہَ جام آئینہ
معانی: برگِ گل: پھول کی پتی ۔ عارضِ زیبا: خوبصورت گال ۔ شاہد: حسین، محبوب ۔ حجلہ: سجا ہوا ۔
مطلب: بہار کے خوبصورت رخسار کے لیے پھولوں کی پتیاں بھی آئینے کی مثال ہوتی ہیں اور پیمانہ شراب کے لیے آئینے کاکام دیتا ہے ۔
حُسن آئینہ حق اور دل آئینہَ حُسن دلِ انساں کو ترا حُسنِ کلام آئینہ
معانی: آئینہ حق: یعنی حسن کو دیکھ کر خدا کی قدرت کا پتا چلتا ہے ۔ حُسنِ کلام: دل کش شاعری ۔
مطلب: اسی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ حقیقت اور سچائی کے لیے حسن آئینے کی صفت رکھتا ہے ۔ اس منظر نامے میں اگر شیکسپئیر کے کلام کا جائزہ لیا جائے تو وہ قاری کے لیے انسانی نفسیات کے اسرار و رموز کو سمجھنے کے لیے آئینہ ہے ۔
ہے ترے فکرِ فلک رس سے کمالِ ہستی کیا تری فطرتِ روشن تھی مآلِ ہستی
معانی: فکرِ فلک رس: آسمان تک پہنچنے والا یعنی بلند تخیل ۔ کمالِ ہستی: زندگی، وجود کی تکمیل یا ہنر ۔ فطرتِ روشن: ایسا مزاج، تخلیقی قوت جس کی روشنی میں انسانی جذبوں کا پتا چلے ۔ مآل: انجام، اخیر ۔
مطلب: اقبال اس شعر میں شیکسپئیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تیرے بلند فکر کلام نے انسان کو زندگی کے مالات سے روشناس ہونے کے مواقع فراہم کیے ۔ کیا تیری روشن فطرت زندگی کے انجام سے عبارت تھی یا پھر تیرے بعد تجھ سا دوسرا کوئی پیدا نہیں ہوا ۔
تجھ کو جب دیدہَ دیدارِ طلب نے ڈھونڈا تابِ خورشید میں خورشید کو پنہاں دیکھا
معانی: دیدہَ دیدار طلب: دیکھنے کی خواہشمند آنکھیں ۔ تابِ خورشید: سورج کی روشنی ۔ پنہاں : چھپا ہوا ۔
مطلب: یہاں اقبال کہتے ہیں کہ اے شیکسپئیر! تو وہ عظیم تخلیق کار ہے کہ جب بھی کسی مداح نے تیرا دیدار کرنا چاہا تو اس طرح محسوس کیا جیسے سورج کی تیز اور آنکھوں کو چندھیا دینے والی روشنی میں سورج کے وجود کو دیکھ رہا ہے ۔
چشمِ عالم سے تو ہستی رہی مستور تری اور عالم کو تری آنکھ نے عریاں دیکھا
معانی: مستور: چھپی ہوئی ۔ عریاں : ظاہر ۔
مطلب: ہر چند کہ دنیا کی نگاہوں سے تیرا وجود پوشیدہ رہا لیکن اس حقیقت سے بھی انکار کی گنجائش نہیں کہ تیری بصیرت افروز نگاہوں نے ساری کائنات کو عریاں اور بے پردہ دیکھ لیا ۔
حفظِ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا
معانی: سودا: دُھن ۔ رازداں ایسا: یعنی شیکسپئیر جس نے قدرت کے مظاہر کا گہرا مشاہدہ کیا ۔
مطلب: آخری بات یہ ہے کہ اپنے رازوں کو چھپانے کا فطرت کو ایسا جنون ہے کہ تیرے بعد شاید کوئی شخص تخلیق نہ کیا جا سکے جو تیری طرح فطرت کے رازوں کو افشاں کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو ۔