شاعر
مشرق کے نیستاں میں ہے محتاجِ نفس نے شاعر! ترے سینے میں نفس ہے کہ نہیں ہے
معانی: نیستاں : سرکنڈوں کا جنگل، بانسوں کا جنگل ۔ نفس: سانس ۔ نے: بانس کا ایک ٹکڑا، بنسری ۔
مطلب: مشرق کے نیستاں میں جو بانس کا ٹکڑا یا بنسری ہے وہ کسی کے سانس کی محتاج ہے ۔ اقبال مشرق کے خصوصاً برصغیر کے شاعر سے پوچھتے ہیں کہ کیا تیرے پاس ایسا سانس ہے کہ جس کی پھونک سے یہ بانسری لے نکال سکے ۔ مراد یہ ہے کہ مشرق غلامی میں جکڑا ہوا ہے ۔ غفلت کی نیند سویا ہوا ہے ۔ اے شاعر تو اپنی شاعری کے ذریعے اسے بیدار کر سکتا ہے لیکن معلوم نہیں تیرے پاس بیدار کرنے والا شاعری کا جوہر موجود ہے یا نہیں ہے ۔ اس ہے اور نہیں ہے مطلب یہی نکلتا کہ نہیں ہے ۔ مشرق کا شاعر بھی غلامی کی شراب پی کر مست ہے ۔ اور ایسی شاعری کر رہا ہے جس سے اقوام بیدار ہونے کی بجائے اور سو جائے۔
تاثیر غلامی سے خودی جس کی ہوئی نرم اچھی نہیں اس قوم کے حق میں عجمی لے
معانی: اے شاعر جس قوم کی خودی غلامی کے اثر کی وجہ سے نرم ہو چکی ہو یعنی اس میں خود شناسی کا مادہ موجود نہ ہو اور اس میں آزادی کی خواہش ختم ہو چکی اس قوم کے حق میں وہ غیر عربی لے جو تو بانسری سے نکال رہا ہے یا اپنی شاعری کے ذریعے قوم کے کانوں تک پہنچا رہا ہے مناسب نہیں ہے ۔ اس سے تو غلام قوم تاثیر غلامی میں اور پختہ ہو جائے گی ۔ تیرے لیے ضروری ہے کہ تو غیر عربی کے بجائے عربی اور حجازی لے اختیار کرے اور درس اسلامی دے کر قوم کو بیدار کرے ۔
شیشے کی صراحی ہو کہ مٹی کا سبو ہو شمشیر کی مانند ہو تیزی میں تری مے
مطلب: اس سے کوئی غرض نہیں کہ تیری شراب شیشے کی صراحی میں ہے یا مٹی کے پیالے یا مٹکے میں ہے ۔ غرض اس سے ہے کہ جو شراب اس میں ہے وہ اپنی تندی اور تیزی میں تلوار کی کاٹ کی مانند ہو ۔ شاعری میں ایک تو الفاظ ہوتے ہیں اور دوسرے معانی یا بہ الفاظ دیگر ایک طرز اور ادائیگی ہوتی ہے اور دوسرے موضوعات اور مضامین ۔ اقبال کہتے ہیں کہ انداز بیان کا اچھا ہونا بھی اگرچہ شاعری میں ضروری ہے لیکن اصل ضرورت مضامین کے اچھے ہونے کی ہے ۔ اے شاعر تیری شاعری کے مضامین افراد و اقوام میں شرف آدمیت پیدا کرنے اور ان کو غلامی سے آزاد کرنے کے لیے ہونے چاہیں ۔ چاہے ان کے طرز کوئی اختیار کر لی جائے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔
ایسی کوئی دنیا نہیں افلاک کے نیچے بے معرکہ ہاتھ آئے جہاں تختِ جم و کے
معانی: افلاک: فلک کی جمع، آسمان ۔ بے معرکہ: جنگ یا کوشش کے بغیر ۔ تخت جم و کے: جم اور کے کا تخت یعنی ایران کے ان مشہور بادشاہوں کا تخت یعنی عروج اور ترقی اور مقام بلند ۔
مطلب: شاعر کہتا ہے کہ میں نے آسمان کے نیچے ایسی کوئی دنیا نہیں دیکھی جہاں کوئی فرد یا کوئی جماعت بغیر حالات سے مقابلہ کیے اور بغیر تگ و دو اور کوشش کے کامیاب ہوئی ہو یا بلندی پر پہنچی ہو ۔
ہر لحظہ نیا طُور، نئی برقِ تجلی اللہ کرے مرحلہَ شوق نہ ہو طے
معانی: ہر لحظہ: ہر لمحہ ۔ طور: وادی سینا کا ایک پہاڑ جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام جایا کرتے تھے ۔ برق تجلی : جلوے کی بجلی ۔ مرحلہ شوق: عشق کا فاصلہ یا منزل ۔
مطلب: حضرت موسیٰ علیہ السلام جس کوہ طور پر اللہ سے ہمکلام ہونے کے لیے جاتے تھے وہ پہاڑ تو دنیا میں صرف ایک ہی ہے اور اس پہاڑ پر اللہ تعالیٰ کے نور کے جس جلوے کی بجلی حضرت موسیٰ پر گری تھی وہ بھی صرف ایک مرتبہ ہی گری ہے لیکن عشق کی منزل تک کے سفر میں ایک نہیں کئی طور آتے ہیں ۔ جلوے کی ایک بجلی نہیں کئی بجلیاں گرتی ہیں اور عاشق کو ہر نئے طور پر اور ہر نئی بجلی گرنے پر ایک نیا مزہ آتا ہے ۔ اسی لیے وہ اللہ سے دعا کرتا ہے کہ عشق کا یہ سفر کبھی ختم نہ ہو ۔