فقر و راہبی
کچھ اور چیز ہے شاید تری مسلمانی تری نگاہ میں ہے ایک فقر و راہبانی
معانی: فقرو راہبی: فقر کے لغوی معنی تنگ دستی کے ہیں لیکن اصلاح میں فقر وہ جوہر ہے جو مسلمان کو محبوب حقیقی سے مل کر دنیا کی ہر شے سے بے نیاز کر دیتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں راہبی کا مفہوم دنیا کو ترک کرنا ہے ۔
مطلب: اگر تو صحیح مسلمان ہوتا تو فقر میں اور راہبی میں تمیز کر سکتا لیکن تجھ میں اسلام کی صحیح سوچ نہ ہونے کی وجہ سے یہ تمیز ختم ہو چکی ہے اور تو عیسائیوں کے پادریوں اور ہندووَں کے جوگیوں یوگیوں کی طرح مسلمان فقیر کو بھی یہی سمجھتا ہے کہ وہ بھی ان کی طرح تارک الدنیا ہی ہوتا ہے ۔ یہ خیال فقر کے خلاف لوگ عام طور پر ظاہر کرتے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔ مسلمان کے فقر اور غیر مسلموں کے فقر میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ مسلمان کا فقر دنیا سدھارتا ہے ۔ کافر کا فقر دنیا گریز ہے ۔
سکوں پرستیِ راہب سے فقر ہے بیزار فقیر کا ہے سفینہ ہمیشہ طوفانی
معانی: سکوں پرستی راہب: راہب کی آرام پسندی ۔ سفینہ: کشتی ۔ طوفانی : مشکلات سے ٹکرانے والا ۔
مطلب: سچا درویش ہندووَں اور عیسائیوں کے درویشوں کی طرح آرام طلب ، گوشہ گیر اور تارک الدنیا نہیں ہوتا بلکہ اس کی زندگی کی کشتی ہمیشہ طوفانوں سے کھیلتی رہتی ہے ۔ وہ ہمیشہ باطل سے ٹکراتا ہے ۔ قوم کو بناتا ہے افراد کو سلجھاتا ہے ۔ دنیا پرست اور نفس پرست بھی نہیں ہوتا وہ اس دنیا کا باشندہ ہوتا ہے جو آخرت کے راستے کی رکاوٹ نہیں بنتی ۔ الفقرُ فخری (مجھے اپنے فقر پر فخر ہے) ایسے ہی فقر کے متعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے ۔
پسند روح و بدن کی ہے وا نمود اس کو کہ ہے نہایتِ مومن خودی کی عریانی
معانی: نمود: ظاہر ہونا ۔ خودی کی عریانی: خودی کا ظاہر ہونا ۔
مطلب: غیر مسلم درویش بدن کر مارتے ہیں ۔ مسلمان درویش بدن کو بھی قائم رکھتا ہے اور روح کی پرورش بھی کرتا ہے ۔ وہ غیر مسلم درویشوں کی طرح بدن کی جائز ضروریات کو نہیں بھولتا ۔ خودی بے نقاب صرف اس وقت ہو سکتی ہے جب بدن اور روح دونوں کے ساتھ ساتھ پرورش ہو اس لیے مسلمان فقیر اپنی خودی کو عریاں کرتا ہے جب کہ غیر مسلم درویش خودی کو فنا کرتا ہے ۔
وجود صیرفیِ کائنات ہے اس کا اسے خبر ہے یہ باقی ہے اور وہ فانی
معانی: صیرفیِ کائنات: کائنات کی کسوٹی ۔ باقی: قائم رہنے والا ۔ فانی: فنا ہونے والا ۔
مطلب: مسلمان، فقیر کائنات کا صیرفی ہے ۔ جس طرح صراف سونے کو کسوٹی پر لگا کر بتا دیتا ہے کہ یہ کھوٹا ہے یہ کھرا ہے اسی طرح مسلمان فقیر کائنات اور اس کی ہر شے کو جانتا ہے کہ یہ کھوٹی ہے یہ کھری ہے ۔ یہ حق ہے یہ باطل ہے ۔ یہ باقی رہنے والی ہے یہ فنا ہو جانے والی ہے ۔ جب کہ غیر مسلم درویش اس بارے میں اندھا ہے ۔ اس نے جب کائنات ہی ترک کر دی تو اس کے کھوٹے کھرے کو کیا سمجھے گا ۔ اسے فانی و باقی کی کیا خبر ہو گی ۔
اسی سے پوچھ کہ پیشِ نگاہ ہے جو کچھ جہاں ہے یا کہ فقط رنگ و بو کی طغیانی
معانی: پیشِ نگاہ: نظر کے سامنے ۔ طغیانی: بہتات ۔
مطلب: مسلمان درویش چونکہ کائنات اور اس میں پوشیدہ رازوں کو جانتا ہے اس لیے تو اس سے ہی یہ پوچھ کہ جو کچھ ہماری نظروں کے سامنے ہے یعنی جس کائنات کو ہم دیکھ رہے ہیں یہ حقیقی ہے یا محض رنگ و بو کی پر ہنگامہ تصویر ہے ۔ رنگ و بو ہمیشہ اڑ جاتے ہیں باقی نہیں رہتے ۔ فقیر کی نظر میں کائنات کی کوئی حقیقت نہیں ۔ اصل حقیقت اس کی اپنی ہے اس کے خدا کی ہے ۔ وہ اس کائنات کو ٹھکرا دیتا ہے جس کائنات کی قرآن بھی برائی کرتا ہے اور اپنے فکر اور اپنے عمل سے ایسی دنیا بناتا ہے جو دنیا ہوتے ہوئے دین بن جاتی ہے ۔
یہ فقر مردِ مسلماں نے کھو دیا جب سے رہی نہ دولتِ سلمانی و سُلیمانی
معانی: سلمانی : حضرت سلمان فارسی کا زُہد ۔ سلیمانی: حضرت سلیما ن کی شاہی ۔
مطلب: جب سے مسلمانوں میں وہ فقر غائب ہوا ہے جس کی خصوصیات مذکورہ بالا اشعار میں بیان کی گئی ہیں اور مسلمانوں نے غیر مسلموں کا سا فقر اور پیشہ ور فقر بلکہ گدائی اختیار کر لی ہے اس وقت سے مسلمانوں میں نہ سلمانی شان رہی ہے اور نہ سلیمانی شکوہ رہا ہے ۔ یعنی تزکیہ، تقویٰ ، پرہیزگاری اور درویشانہ شان رہی ہے اور نہ دنیاوی شان و شکوہ جہانبانی اور حکمرانی باقی رہی ہے ۔