سرودِ حرام
نہ میرے ذکر میں ہے صوفیوں کا سوز و سرور نہ میرا فکر ہے پیمانہَ ثواب و عذاب
معانی: ذکر: اللہ کو یاد کرنا ۔ فکر: اللہ اس کی کائنات اور اپنے متعلق غور کرنا ۔ سرود حرام : ناجائز موسیقی، راگ ۔ سوز: جلن، تپش ۔ سرور: مستی ۔ پیمانہ: ناپ ، آلہ ۔
مطلب: شاعر اپنی بات کرتا ہوا ایک خاص طبقے کی نمائندگی کر تا ہے اور کہتا ہے کہ میں جو اللہ کا ذکر کرتا ہوں اس میں صوفیوں جیسی تپش اور مستی موجود نہیں ہے ۔ اور میری فکر بھی ثواب او ر عذاب کا پیمانہ لیے ہوئے نہیں ہے ۔ یعنی اس کے ذریعے بھی میں یہ فیصلہ نہیں دے سکتا کہ یہ بات ثواب میں داخل ہے اور یہ بات عذاب میں داخل ہے یہ کام تو صوفیاء اور فقہا کا ہے ۔
خدا کرے کہ اسے اتفاق ہو مجھ سے فقیہِ شہر کہ ہے محرمِ حدیث و کتاب
معانی: فقیہ شہر: شہر کا عالم دین ۔ محرم حدیث و کتاب: قرآن اور حدیث کا جاننے والا ۔
مطلب: شاعر نے پہلے شعر میں اگرچہ خود کو صوفیا اور علما کے ذکر و فکر کی دنیا سے الگ رکھا ہے اس لیے وہ شہر کے عالم دین اور قرآن و حدیث جاننے والے کے متعلق جو عام طور پر مختلف مسائل پر دینی فیصلے دیتے ہیں کہتا ہے کہ اللہ کرے جو بات میں کہنے والا ہوں اس سے وہ اتفاق کر لیں ۔ شاعر نے جو بات کہی ہے وہ اگلے شعر میں موجود ہے ۔
اگر نوا میں ہے پوشیدہ موت کا پیغام حرام میری نگاہوں میں نائے و چنگ و رباب
معانی: نوا: آواز، یہاں مراد ہے راگ ۔ نائے ، چنگ ، رباب: یہ سازوں کی مختلف قسمیں ہیں ۔
مطلب: شاعرکہتا ہے کہ اگر گانے والے کا راگ یا سازندے کا ساز زندگی کے بجائے موت کا پیغام دے تو چاہے وہ راگ بانسری پر ہو یا چنگ اور رباب پر ہو میری نگاہ میں حرام ہے جو راگ افراد کو غفلت سے نکالنے کی بجائے غفلت کی نیند سلا دے ۔ زندگی کے قریب لے جانے کی بجائے موت کے قریب لے جائے وہ جائز نہیں ہے ۔