رُوحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے
کھول آنکھ، ز میں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
معانی: روحِ ارضی: زمینی روح ۔ فلک: آسمان ۔ فضا: کھلی بلندیاں ۔
مطلب: اے آدم ! تیرے لیے یہ ز میں یہ مقام اجنبی حیثیت کا حامل ہے بہشت سے نکال کر خداوند تعالیٰ نے تجھے یہاں بھیجا ہے ۔ ظاہر ہے کہ بہشت ماحول مختلف تھا ۔ یہاں کی فضا بھی مختلف ہے چنانچہ یہ میری ذمہ داری ہے کہ تجھے اس اجنبی فضا سے متعارف کراؤں لہذا اس کے لیے یہ امر ناگزیر ہے کہ اپنی آنکھیں کھول کر اس زمین، اس آسمان بلکہ ساری فضا کو بغور جائزہ لے ۔ مشرق کی سمت سے طلوع آفتاب کا نظارہ کر ۔
اس جلوہَ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ ایامِ جدائی کے ستم دیکھ، جفا دیکھ بے تاب نہ ہو، معرکہَ بیم و رجا دیکھ
معانی: پردوں میں چھپا: جو کچھ فطرت میں موجود ہے ۔ جفا: ظلم ۔ بے تاب: بے چین ۔ بیم: خطرہ ۔ رجا: امید ۔
مطلب: اور تو نے جن جلووں کو بے پردہ دیکھا ہے اب پردوں میں بھی ان کا مشاہدہ کر اور یہاں زمین کے مصائب و آلام سے بھی آشنائی حاصل کر ۔
اور سب سے اہم کہ کسی اضطراب اور بے چینی کے ساتھ قدرے سکون سے امید و نا امیدی کے منظر نامے کا جائزہ لے اس لیے کہ یہ دنیا تو عملی جدوجہد کا دوسرا نام ہے جہاں امید اور نا امیدی دو متضاد مگر زندہ حقیقتیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں ۔
ہیں تیرے تصرّف میں یہ بادل، یہ گھٹائیں یہ گنبدِ افلاک، یہ خاموش فضائیں
معانی: تصرف: قبضہ ۔ گبند افلاک: آسمان ۔
مطلب: پہچان لے کہ یہ جو بادل اور گھٹائیں ہیں ، یہ جو آسمان اور اس کے نیچے خاموش فضائیں موجود ہیں ۔ یہ پہاڑ، صحرا ، سمندر اور ہوائیں یہ سب اب تیرے تصرف اور زیر اہتمام و انصرام ہیں ۔
یہ کوہ، یہ صحرا، یہ سمندر، یہ ہوائیں تھیں پیشِ نظر کل تو فرشتوں کی اداءیں آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ
مطلب: یہ نظارہ یوں بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ کل تو تیرا مسکن بہشت تھا لیکن اب تو ز میں پر مسند نشین ہو چکا ہے لہذا لازم ہے کہ یہاں کے شب و روز اور ماحول کا جائزہ لے کہ یہاں کے مسائل اور مشکلات کا اندازہ ہو سکے ۔
سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے دیکھیں گے تجھے دُور سے گردوں کے ستارے
مطلب: اس بند میں اقبال فرشتوں کی جانب سے آدم کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ابھی تو تو اس دنیا میں نیا نیا وارد ہوا ہے لیکن وہ دن دور نہیں جب یہاں کی ہر شے تیری عظمت کا لوہا ماننے پر مجبور ہو جائے گی ۔ یہ زمانہ تیری آنکھوں کے اشاروں کو سمجھے گا اور فلک پر ستارے تجھے دور سے دیکھ کر رشک کریں گے ۔
ناپید ترے بحرِ تخیل کے کنارے پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے تعمیرِ خودی کر، اثرِ آہِ رسا دیکھ
معانی: ناپید: غیر موجود ۔ بحر تخیل: خیالوں کا سمندر ۔ فلک: آسمان ۔ مطلب: تیرے خیالات و تصورات میں اتنی وسعت ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں ہے ۔ کسی مرحلے پر تیرے دل سے آہ بھی نکلی تو اس کا تاثر آسمان تک بھی پہنچ جائے گا لیکن اس کے لیے یہ امر لازم ہے کہ تو اپنی خودی کی تعمیر کرے پھر دیکھ تیری آہ کا اثر کہاں تک پہنچتا ہے ۔
خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
معانی: جہاں تاب: جہان کو روشن کرنے والا ۔ ضو: روشنی ۔ شرر: چنگاری ۔ ہنر: فن ۔
مطلب: تیرے سینے میں فکر کی جو چنگاری موجود ہے اس میں ساری دنیا کو منور کرنے والے آفتاب کی ضو پوشیدہ ہے اور تجھ میں جو ہنر موجود ہے وہ ایک نیا جہان تخلیق کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے ۔
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں جنت تری پنہاں ہے ترے خونِ جگر میں اے پیکرِ گل! کوششِ پیہم کی جزا دیکھ
معانی: فردوس: جنت ۔ پیکرِ گل: پھول جیسا جسم ۔ پیہم: لگاتار ۔
مطلب: اس لیے کہ تو اور تیری حمیت مانگی ہوئی جنت قبول کرنے پر یقین نہیں رکھتی ۔ اس لیے کہ تیری جنت تو خود تیری صلاحیت اور محنت و مشقت میں پوشیدہ ہے چنانچہ اے خاک کے پتلے ہمت کر اور اپنی سعی پیہم کا صلہ حاصل کر لے ۔
نالندہ ترے عود کا ہر تار ازل سے تو جنسِ محبت کا خریدار ازل سے
معانی: نالندہ: رونے والا، پرسوز ۔ عود: ساز ۔ تارِ ازل: آغازِ کائنات ۔
مطلب: ابتدائے آفرینش سے ہی تیری حیثیت مسلمہ ہے ۔ اسی لمحے سے محبت تیری روح میں رچی بسی ہوئی ہے ۔ حقیقت یہ کہ کائنات کے جملہ اسرار تیری ذہانت سے منکشف ہوئے ہیں ۔
تو پیرِ صنم خانہَ اسرار ازل سے محنت کش و خوں ریز و کم آزار ازل سے ہے راکبِ تقدیر جہاں تیری رضا دیکھ
مطلب: اور آخری بات یہ کہ تو ابتدا سے ہی محنت و مشقت کا عادی اور خون پسینہ ایک کرنے والا ہے ۔ مزید یہ کہ کسی کو آزار میں مبتلا نہیں کرتا اسی لیے تیری مرضی کے بغیر یہ دنیا بے معنی شے ہے ۔