نمبر ۴
پردہ چہرے سے اُٹھا، انجمن آرائی کر چشمِ مہر و مہ و انجم کو تماشائی کر
معانی: پردہ چہرے سے اٹھا: اے محبوب حقیقی کھل کر سامنے آ، اپنا دیدار کرا ۔ انجمن آرائی کر: پردے سے باہر نکل کر سامنے ۔ آ مہر و مہ و انجم: سورج اور چاند اور ستارے مراد کائنات ۔ تماشائی کر: دیکھنے والا بنا ۔
مطلب: اے میرے محبوب! اپنا چہرے سے پردہ اٹھا کر اس طرح دیکھنے والوں کو جلوہ دکھا کہ وہ مبہوت ہو کر رہ جائیں حتی کہ سورج، چاند اور ستارے بھی تیرا جلوہ دیکھنے پر مجبور ہو جائیں ۔
تو جو بجلی ہے تو یہ چشمکِ پنہاں کب تک بے حجابانہ مرے دل سے شناسائی کر
معانی: چشمکِ پنہاں : کنکھیوں سے دیکھنا، نظر چرا کر دیکھنا ۔ بے حجابانہ: کھلے طور پر ۔ شناسائی: واقفیت، دوستی ۔
مطلب: اگر تو بجلی کی مانند رخشندہ ہے تو میں اپنے وجود کو چھپاتا کیا اے محبوب! اس صورت میں لازم ہے کہ کسی حجاب کے بغیر میرے دل میں جاگزیں ہو جا ۔
نفسِ گرم کی تاثیر ہے اعجازِ حیات تیرے سینے میں اگر ہے تو مسیحائی کر
معانی: نفسِ گرم: گرم سانس، عشق کی تپش ۔ اعجازِ حیات: زندگی، زندہ کرنے کا معجزہ، کرامت ۔ مسیحائی: مردوں کو زندہ کرنے کا عمل ۔
مطلب: حیات انسانی میں سانس کی حرارت ایک معجزے کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اگر تیرے میں یہ حرارت موجود ہے تو تجھے بھی عیسیٰ کی مانند مسیحائی کا درجہ حاصل ہونا چاہیے ۔
کب تلک طُور پہ دریوزہ گری مثلِ کلیم اپنی ہستی سے عیاں شعلہَ سینائی کر
معانی: طور: وادیِ ایمن کا پہاڑ، کوہ طور ۔ دریوزہ گری: بھیک مانگنے کی کیفیت ۔ مثلِ کلیم: حضرت موسیٰ کی طرح ۔ ہستی: وجود ۔ شعلہ سینائی: وہ روشنی جو حضرت موسیٰ کو طور سینا پر نظر آئی ۔
مطلب: حضرت موسیٰ نے کوہ طور پر رب ذوالجلال سے جلوہ دکھانے کی جو درخواست کی تھی بے شک وہ تو ایک طرح سے بھیک مانگنے کی حیثیت رکھتی تھی لیکن تیرے لیے لازم ہے کہ اس نوعیت کی درخواست کی بجائے اپنے ہی وجود سے کوہ طور جیسے جلوے کو برآمد کر ۔
ہو تری خاک کے ہر ذرے سے تعمیرِ حرم دل کو بیگانہَ اندازِ کلیسائی کر
معانی: خاک کا ہر ذرہ: یعنی جسم کا رواں رُواں ، بال بال ۔ تعمیرِ حرم: اسلامی شعائر پر پورا عمل یا اسلام کی اشاعت و ترقی کے لیے جدوجہد ۔ بیگانہ: اجنبی ۔ اندازِ کلیسائی: غیر اسلامی، مغربی طور طریقے ۔
مطلب: اس شعر میں اقبال براہ راست مرد مسلمان سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تیری خاک کے ہر ذرے میں ایسی بھرپور صلاحیت ہونی چاہیے کہ اس سے کعبے کی تعمیر ممکن ہو سکے لیکن اس کے لیے لازم ہے کہ تو کلیسا کی تہذیب سے چھٹکارا حاصل کر لے اور اپنے ماضی کی طرف لوٹ آئے ۔
اس گلستاں میں نہیں حد سے گزرنا اچھا ناز بھی کر تو بہ اندازہَ رعنائی کر
معانی: حد سے گزرنا: اعتدال سے بڑھ جانا ۔ ناز: ادا، غمزدہ ۔ باندازہَ رعنائی: خوبصورتی، حسن و جمال ۔
مطلب: اے محبوب! اس عالم رنگ و بو میں حد سے گزرنا کسی طور پر بھی مناسب نہیں کہ تو نے اپنے ناز بھی دکھانے ہیں تو اپنی بساط کے مطابق دکھا ۔
پہلے خوددار تو مانندِ سکندر ہو لے پھر جہاں میں ہوسِ شوکتِ دارائی کر
معانی: سکندر: سکندر رومی، یونانی ۔ شوکتِ دارائی: ایران کے قدیم بادشاہ دارا کی سی شان ۔
مطلب: پہلے سکندر کی مانند خوددار تو بن جا اس کے بعد ہی دارا جیسے بادشاہ کی شان و شوکت کی تمنا درست ثابت ہو سکتی ہے ۔ ورنہ خودداری اور غیرت مندی کے بغیر اس نوع کی کامرانی ممکن نہیں ۔
مِل ہی جائے گی کبھی منزلِ لیلیٰ اقبال کوئی دن اور ابھی بادیہ پیمائی کر
معانی: منزلِ لیلیٰ: محبوب کا ٹھکانا ۔ بادیہ پیمائی: محبوب کی تلاش میں جنگلوں بیابانوں میں پھرنا ۔
مطلب: اے اقبال آخر کار ایک روز تجھے تیری منزل مقصود ہاتھ آ ہی جائے گی تا ہم اس کے لیے ضروری ہے کہ ابھی کچھ مزید جدوجہد کر ۔