عبدالقادر کے نام
اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا اُفق خاور پر بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں
معانی: عبدالقادر: شیخ عبدالقادر جو اقبال کے پرانے ساتھی تھے ۔ انھوں نے 1901 میں اپنا اردو کا مشہور رسالہ مخزن نکالا ۔ ظلمت: اندھیرا ۔ افقِ خاور: مشرق کا آسمانی کنارہ ۔
مطلب: اقبال نے یہ اشعار خط کی صورت میں اپنے بہترین اور جگری دوست سر عبدالقادر کے نام لکھ کر بھیجے تھے ۔ اقبال اور سر عبدالقادر خیالات و نظریات کے حوالے سے اس قدر ہم آہنگ نظر آتے کہ علامہ کی شاعری کا ایک بڑا حصہ سر عبدالقادر کی زیر ادارت مشہور زمانہ جریدے مخزن میں ہی شاءع ہوا ۔ چنانچہ سر عبدالقادر سے مکالمہ کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ یہ خطہ مشرق جو ہمیشہ علم و فضل کا گہوارہ رہا ہے اور جس سے فہم و دانش کی روشنی ہمیشہ طلوع ہوتی ہے وہاں پر ظلمت، تاریکی اور جہالت نے اپنا تسلط جما لیا ہے ۔ ان حالات میں ہم پر لازم ہے کہ اپنی جدوجہد اور تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے اس ظلمت اور جہالت کو فکر و احساس کی روشنی سے منور کر دیں ۔
ایک فریاد ہے مانندِ سپند اپنی بساط اسی ہنگامے سے محفل تہ و بالا کر دیں
معانی: سپند: سیاہ دانہ جو آگ پر پڑنے سے چٹختا ہے ۔ بساط: حیثیت ۔ ہنگامہ: مراد کوشش، جدوجہد ۔ تہ و بالا کرنا: مراد انقلاب پیدا کر دینا ۔
مطلب: ہم میں اظہار کی قوت تو موجود ہے یہی قوت قوم و ملت کی فرسودہ بساط کو تہہ و بالا کر دینے کے لیے کافی ہے ۔ اسی طور پر یہاں انقلاب کی بنیاد ڈالی جا سکتی ہے ۔
اہلِ محفل کو دکھا دیں اثرِ صیقلِ عشق سنگِ امروز کو آئینہ فردا کر دیں
معانی: صیقل: پالش، زنگ صاف کرنا ۔ سنگِ امروز: آج، حال کا پتھر ۔ آئینہ فردا: مستقبل کا آئینہ ۔
مطلب: اگر ہم ملت کو یہ باور کرا دیں کہ عشق حقیقی کو ہی تکمیل مقاصد کے لیے بروئے کار لایا جائے اور حالات کا مقابلہ سچے جذبے اور تڑپ سے کیا جائے تو ہمارے حال کی سنگینی مستقبل کی خوش حالی اور بہتری میں تبدیل ہو سکتی ہے ۔
جلوہَ یوسفِ گم گشتہ دکھا کر ان کو تپش آمادہ تر از خونِ زلیخا کر دیں
معانی: یوسفِ گم گشتہ: کھویا ہوا یوسف، مراد پرانے صاحبِ کمال بزرگ جنھیں لوگ بھول گئے ہیں ۔ تپش آمادہ تر از خونِ زلیخا: مراد پرانے بزرگوں کی پیروی کے سلسلے میں زلیخا کے خون سے بھی زیادہ بیقرار ۔
مطلب: اپنی قوم کو درخشاں ماضی کی جھلک دکھا کر اس کے افراد کے قلوب میں وہی جذبہ اور تڑپ پیدا کر دیں جو یوسف کو دیکھ کر زلیخا کے دل میں پیدا ہوا تھا ۔ مراد یہ کہ حصول مدعا کا تصور بھی انسان کے لیے عمل ارتقاء کا موجب ہو سکتا ہے ۔
اس چمن کو سبق آئینِ نمو کا دے کر قطرہَ شبنمِ بے مایہ کو دریا کر دیں
معانی: آئینِ نمو: بڑھنے پھولنے کا دستور، طریقہ ۔ شبنمِ بے مایہ: بے حقیقت اوس ۔ دریا کر دیں : مراد بے حقیقت سے عظیم بنا دیں ۔
مطلب:ملت کو ترقی کے لیے اس طرح آمادہ کریں کہ وہ جدوجہد کر کے انتہائی عروج پر پہنچ جائے ۔ اب تک تو ہم دوسروں کی تہذیب کے شیدائی رہے ہیں اور انہی کی نقل کرتے رہے ہیں لیکن اب یہ ضروری ہو گیا کہ ملت کو اپنی تہذیب اور اقدار کی طرف راغب کریں ۔
رختِ جاں بُت کدہَ چیں سے اٹھا لیں اپنا سب کو محوِ رخِ سعدیٰ و سلیمیٰ کر دیں
معانی: رخت جاں : روح کا سامان، مراد دل و جان ۔ بتکدہَ چیں : مراد اسلام سے ہٹ کر ہر طرح کی راءج الوقت تعلیم وغیرہ ۔ محو: مصروف، متوجہ ۔ رخِ سعدیٰ و سلیمیٰ: عرب کی مشہور حسیناؤں سعدیٰ و سلیمیٰ کا چہرہ، مراد عرب تہذیب و معاشرت کی خوبیاں ۔
دیکھ! یثرب میں ہوا ناقہَ لیلیٰ بیکار قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں
مطلب: افسوسناک امر تو یہ ہے کہ اب تو مدینے میں یعنی اسلامی دنیا میں بھی وہ صلاحیت باقی نہیں رہی کہ دوسروں کو متاثر اور گرویدہ کر سکے لہذا یہ ضروری ہو گیا ہے کہ انہیں ایسی نئی روایت سے آگاہ کیا جائے جو ہماری بنیادی تہذیب اور اقدار سے ہم آہنگ ہو ۔