Please wait..

خطاب بہ نوجوانانِ اسلام

 
کبھی اے نوجواں مسلم تدّبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

معانی: خطاب: چند لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر گفتگو کرنا ۔ تدبر: غوروفکر، سوچ بچار ۔ گردوں : آسمان ۔
مطلب: یہ نظم اقبال نے بطور خاص مسلمان نوجوانوں کے لیے لکھی اور غالباً یہ کسی ایسے اجتماع میں ہی پڑھی گئی جس کا تعلق نوجوانوں سے تھا ۔ چنانچہ وہ نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے یوں گویا ہوتے ہیں کہ اے نوجوان مسلم ! کبھی تو نے اتنا بھی سوچا ہے کہ تیرا ماضی کسی قدر شاندار تھا وہ ماضی جو ایک آسمان کے مانند تھا جس کا تو ایک ٹوٹا ہوا ستارا ہے ۔

 
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِ دارا

معانی: آغوش: گود ۔ تاجِ سرِ دارا: اسلام سے پہلے ایران کے قدیم بادشاہ دارا کے سر کا تاج ۔ دارا عظیم شان و شوکت والا بادشاہ تھا مرا د ایران کی اس وقت کی عظیم حکومت ۔
مطلب: تجھے اس قوم نے اپنی آغوش محبت میں پالا ہے جس نے ایران کے مشہور ساسانی تاجدار دارا کے تاج و تخت کو روند ڈالا تھا ۔

 
تمدن آفریں ، خلاّقِ آئینِ جہاں داری
وہ صحرائے عرب، یعنی شتر بانوں کا گہوارا

معانی: تمدن آفریں : تہذیب اور باہم رہنے سہنے کے ڈھنگ پیدا کرنے یعنی سکھانے والا ۔ خلاق: تخلیق کرنے، بنانے والا ۔ آئین جہاں داری: دنیا پر حکومت کرنے کا دستور ۔ صحرائے عرب: عرب کا ریگستان، حجاز وغیرہ ۔ شتربان: اونٹ ہانکنے والا ۔ گہوارا: تربیت گاہ ۔
مطلب: اگر تجھے اس کا علم نہیں تو میں بتائے دیتا ہوں یعنی یہ وہ قوم تھی جو صحرائے عرب میں اونٹنی چرانے والوں کے گہواروں میں پلی ۔ اس کے باوجود اس قوم نے دنیا بھر کے لوگوں کو تہذہب و تمدن اور رہنے سہنے کا ڈھنگ سکھایا ۔ اس کے علاوہ حکمرانی کے قاعدے بھی بتائے ۔

 
سماں الفقر فخری کا رہا شانِ امارت میں
بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را

معانی: سماں : منظر ۔ الفقر فخری: رسول اللہﷺ کا ارشاد کہ فقیری میرے لیے فخر کا باعث ہے ۔
مطلب:اتنی کر و فر اور شان و شوکت کے باوجود اس قوم کے لوگوں نے دولت مندی اور حکمرانی کے دور میں بھی درویشی اور فقیری کو اپنا طرہَ امتیاز بنائے رکھے اس لیے کہ خوبصورت چہرے کو سجانے، سنوارنے کی کیا ضرورت ہے یعنی کوئی ضرورت نہیں ۔

 
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا

معانی: منعم: مالدار ۔ گدا: فقیر ۔ یارا: حوصلہ ۔
مطلب: وہ اللہ کے خاص بندے درویش اور فقیری کے عالم میں بھی اس قدر غیرت مند تھے کہ امراء کو اس امر کی جرات و ہمت نہ ہوتی تھی کہ وہ ان فقراء کو کچھ خیرات کے نام پر کسی قسم کا عطیہ دے سکیں ۔

 
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاں گیر و جہاں داد و جہاں بان و جہاں آرا

معانی: صحرا نشیں : ریگستانی علاقوں کے رہنے والے ۔ جہاں گیر: دنیا کو فتح کرنے والے ۔ جہاں دار: دنیا پر حکومت کرنے والے ۔ جہاں بان: دنیا پر حکومت کرنے کے انداز سے واقف ۔ جہاں آرا: دنیا کو سجانے والے مراد دنیا کے لیے باعث مسرت و راحت حکمران ۔
مطلب: غرض تجھے میں کیا بتاؤں کہ وہ صحرا میں رہنے والے لوگ فی الواقع دنیا کے فاتح اور حکمرانوں کے علاوہ ساری دنیا کے محافظ اور اس کو سجانے والے تھے ۔

 
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارہ

معانی: الفاظ میں نقشہ کھینچنا: مراد لفظوں میں اس طرح بیان کرنا کہ پوری تصویری سامنے آ جائے ۔ فزوں تر: بڑھ کر، زیادہ ۔
مطلب: اگر میں چاہوں تو الفاظ میں ان کا نقشہ کھینچ کر رکھ دوں اور اپنی شاعری کے ذریعے ان کا سراپا بیان کروں َ ۔ تاہم مشکل تو یہ ہے کہ تو اس عہد کا تصور کرنے سے قاصر ہے ۔

 
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار، تو ثابت ، وہ سیّارہ

معانی: آبا: جمع اَب، مراد پرانے بزرگ ۔ نسبت ہونا: ان جیسا ہونے کی خوبی رکھنا ۔ گفتار: بول چال ۔ ثابت: ایک جگہ ٹھہرا رہنے والا ۔ سیارہ: مسلسل چلنے یعنی عمل کرنے والے ۔
مطلب: امر واقعہ یہ ہے کہ اگر تیرا اور تیرے اسلاف کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ نتیجہ باسانی اخذ کیاجا سکتا ہے کہ دونوں میں کوئی قدر مشترک نہیں ہے اس لیے کہ تو محض باتیں بناتا اور بے عمل ہے جب کہ وہ صاحب کردار، فعال اور متحرک تھے ۔

 
گنوا دی ہم نے اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے ز میں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

معانی: میراث: بزرگوں کا چھوڑا ہوا سرمایہ ۔
مطلب: دیکھا جائے تو ہم نے اس ورثے کو گنوا دیا جو اسلاف نے ہمارے لیے چھوڑا تھا ۔ یہی سبب ہے کہ ہم انتہائی عروج پانے کے باوجود اب پستی کے آخری مرحلے میں ہیں ۔

 
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئینِ مُسلّم سے کوئی چارا

معانی: آئینِ مُسلّم: مانا ہوا دستور ۔ چارا: بچنے کی کوئی تدبیر ۔
مطلب: حکومت اور سلطنت کا تو کوئی غم نہیں کہ وہ ایک عارضی چیز اور آنے جانے والی شے ہے ۔ آج ایک کے پاس ہے کل دوسرے کے پاس ۔ ہمیشہ سے یہی روایت چلی آ رہی ہے ۔

 
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں اُن کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا

معانی: علم کے موتی: اشارہ ہے ان کتب خانوں کی طرف جو انگریز حکمرانوں نے یہاں سے یورپ پہنچا دیے تھے ۔ سیپارہ: مراد دل کو بہت دکھ پہنچنا۔
مطلب: مگر اپنے اجداد کی چھوڑی ہوئی وہ نادر اور بیش بہا کتابیں جو اب اہل یورپ کے قبضے میں ہیں اور ان سے وہ استفادہ کر رہے ہیں وہاں ان کو دیکھ کر دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے ۔

 
غنی روزِ سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشا کن
کہ نورِ دیدہ اَش روشن کند چشمِ زلیخا را

معانی: غنی ذرا حضرت یعقوب کی سیاہ روزی (بدنصیبی) ملاحظہ کر کہ ان کی آنکھوں کی روشنی (یعنی حضرت یوسف) زلیخا کی آنکھوں کو روشن کر رہی ہے ۔ یعنی وہ زلیخا کے لیے باعثِ سکون و راحت ہیں ۔ (یہ شعر غنی کاشمیری کا ہے)