Please wait..

(54)

 
ہر اک مقام سے آگے گزر گیا مہِ نو
کمال کس کو میسر ہوا ہے بے تگ و دو

معانی: بے تگ و دو: کوشش کے بغیر ۔
مطلب: اقبال نے اپنے کم و بیش تمام اشعار میں انسان بالخصوص مسلمانوں کو عملی جدوجہد کی ترغیب دی ہے ۔ اس نظم کے اشعار میں بھی انھوں نے مختلف حوالوں سے یہی بات دہرائی ہے ۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ عملی جدوجہد کے بغیر آج تک کوئی فرد کمال حاصل نہیں کر سکا ۔ اس کی مثال چاند کی ہے جو اول اول ہلال کی صورت میں نمودار ہوا اور پھر کسی مقام پر ٹھہرے بغیر آخر کار بدرِ کامل کا روپ اختیار کر گیا ۔ مراد یہ ہے کہ یہ حرکت کا عمل ہی تھا جس نے ہلال کو بدر کامل بننے میں مدد دی ۔

 
نفس کے زور سے وہ غنچہ وا ہوا بھی تو کیا
جسے نصیب نہیں آفتاب کا پرتو

معانی: غنچہ وا ہوا: غنچہ کھل گیا ۔
مطلب: سورج کی حدت کے بغیر غنچہ، پھول بن کر شگفتگی اور تازگی حاصل نہیں کر سکتا ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ انسان پھونکیں مار مار کر غنچہ کو نہ پھول بنا سکتا ہے نہ اس میں رنگ و روپ پیدا کر سکتا ہے ۔

 
نگاہ پاک ہے تیری تو پاک ہے دل بھی
کہ دل کو حق نے کیا ہے نگاہ کا پیرو

مطلب: دل اسی صورت میں پاک و پاکیزہ رہ سکتا ہے کہ یہ پاکیزگی انسان کی نگاہ میں بھی موجود ہو کہ قدرت نے عملاً دل کو نگاہ کا تابع پیدا کیا ہے ۔ مرا د یہ ہے کہ انسان کی نظروں میں پاکیزگی اور لطافت ہو گی تو اس کے اثرات دل تک بھی پہنچیں گے ۔

 
پنپ سکا نہ خیابان میں لالہَ دل سوز
کہ سازگار نہیں یہ جہانِ گندم و جو

معانی: لالہَ دل سوز: لالے کا پھول ۔
مطلب: لالے کا پھول باغوں میں نہیں کھلتا وہ تو ایک طرح کا خودرو پھول ہے ۔ جو صحرا و کوہسار میں ہی اپنی بہار دکھاتا ہے ۔ باغوں کی محدود فضا اس کے لیے سازگار نہیں ۔ اقبال کی مراد دراصل اس حوالے سے ان مسلمانوں کی جانب ہے جو کوہ و صحرا کی فضا میں پرورش پاتے ہیں اور دنیا بھر سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیتے ہیں ۔

 
رہے نہ ایبک و غوری کے معرکے باقی
ہمیشہ تازہ و شیریں ہے نغمہَ خسرو

معانی: ایبک: قطب الدین ، ہندوستان کا پہلا سلطان جس نے دہلی کو فتح کیا اور حکومت اسلامی کی بنیاد رکھی ۔ غوری: سلطان شہاب الدین غوری ان کا غلام قطب الدین ایبک تھا ۔
مطلب: امیر خسرو نے جو نغمے تخلیق کیے تھے ان کی گونج آج بھی برقرار ہے ۔ آج بھی فضا میں یہ نغمے اپنی آب و تاب کے ساتھ زندہ ہیں ۔ ان کے برعکس سلطان قطب الدین ایبک اور شہاب الدین غوری کے معرکے محض تاریخ تک محدود ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ تخلیق فن لازوال ہوتا ہے اور ہمیشہ زندہ رہتا ہے ۔