Please wait..

نمبر۷

 
تہِ دام بھی غزل آشنا رہے طائرانِ چمن تو کیا
جو فغاں دلوں میں تڑپ رہی تھی نوائے زیرِ لبی رہی

معانی: تہِ دام: جال کے نیچے ۔ غزل آشنا: مراد چہچہانے والے ۔ طائران: جمع طائر، پرندے ۔ فغاں : فریاد، نالہ ۔ نوائے زیر لبی: ہونٹوں میں دبی ہوئی آواز ۔
مطلب: غلامی کے دور میں بھی اگر اہل وطن نغمہ ریزی کرتے رہے تو اس سے کیا فائدہ ۔ اس لیے کہ حصول آزادی کے لیے دل میں جو تڑپ تھی اس کا اظہار بھی کسی طور پر ممکن نہ ہو سکا ۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں نغمہ ریزی محض ایک منافقانہ عمل ہے ۔

 
ترا جلوہ کچھ بھی، تسلیِ دلِ ناصبور نہ کر سکا
وہی گریہَ سحری رہا، وہی آہِ نیم شبی رہی

معانی: جلوہ: تجلی، دیدار، روشنی ۔ تسلی: اطمینان، سکون ۔ دلِ ناصبور: بے صبر، بے قرار دل ۔ گریہَ سحری: صبح سویرے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے اور رونے کی حالت ۔ آہِ نیم شبی: آدھی رات کے وقت کی آہیں ۔
مطلب: اے میرے محبوب! تو نے بے شک اپنا جلوہ دکھایا لیکن اس سے مجھے اطمینان قلب حاصل نہ ہو سکا ۔ اس لیے کہ اب بھی پہلے کی طرح میں تیرے فراق میں صبحدم گریہ و زاری کرتا رہا اور وہی نصف شب کے وقت آہیں بھرتا رہا ۔

 
نہ خدا رہا نہ صنم رہے، نہ رقیبِ دیر و حرم رہے
نہ رہی کہیں اسد اللہی نہ کہیں ابولہبی رہی

معانی: نہ خدا رہا نہ صنم رہے: یعنی مذہب سے دوری کا زمانہ ہے، خدا اور بتوں دونوں کی عبادت ختم ہو گئی ۔ رقیب دیر و حرم: مندر اور کعبہ کے مخالف ۔ اسد اللہی:خدا کا شیر ہونے کی کیفیت، اسد اللہ، حضرت علی علیہ السلام کا لقب جو ان کی شجاعت اور دلیری کے سبب انھیں دیا گیا ۔ ابولہبی: ابولہب کا سا انداز، ابولہب حضور اکرم کا چچا جو اسلام کا شدید دشمن تھا ۔
مطلب: اب تو وہ دور آ گیا ہے کہ لوگ خدا سے تو الگ رہے بتوں کے تصور سے بھی بے نیاز ہو گئے ہیں نہ وہ حق اور سچائی کو اہمیت دینے کے لیے تیار ہیں نا ہی جھوٹ اور باطل کے پرستار رہے ۔ مراد یہ ہے کہ عہد موجود کا انسان کسی بھی عقیدے کا قائل نہیں رہا جس کا سبب ہر طرح کا انتشار ہے ۔

 
مرا ساز اگرچہ ستم رسیدہَ زخمہ ہائے عجم رہا
وہ شہیدِ ذوقِ وفا ہوں میں کہ نوا مری عربی رہی

معانی: ستم رسیدہ: جس پر ظلم ہوا ہو ۔ زخمہ ہائے عجم: غیر عربی مضرابیں یعنی غیر اسلامی خیالات ۔ شہیدِ ذوقِ وفا: ساتھ نبھانے کے ذوق شوق کا مارا ہوا ۔ نوا: آواز، شاعری ۔ عربی: یعنی اسلام اور ملت اسلامیہ سے متعلق ۔
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ ہر چند شاعری میں میرا اظہار اور اسلوب مغربی اثرات سے نجات نہ پا سکا اس کے باوجود یہ ملت سے وفاداری کا تقاضا ہی تھا کہ میں نے خود کو ہمیشہ اسلام سے وابستہ رکھا ۔