(31)
ہر چیز ہے محوِ خود نمائی ہر ذرّہ شہیدِ کبریائی
معانی: خود نمائی: اپنا آپ دکھانا ۔ کبریائی: بڑائی ۔
مطلب: عجیب بات ہے کہ اس دنیا میں ہر شے خود کو نمایاں کرنے میں مصروف ہے اور ایک معمولی ذرہ بھی خود کو بڑا بنانے کی تگ و دو کر رہا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ دنیا کی ہر شے نمائش کا شکار ہے اور اپنی حقیقت سے بے نیاز ہو کر رہ گئی ہے ۔
بے ذوقِ نمود زندگی، موت تعمیرِ خودی میں ہے خدائی
معانی: اس کے برعکس یہ بھی درست ہے کہ زندگی میں ذاتی کمالات کی نمائش کا جذبہ موجود نہ ہو تو پھر ایسی زندگی یقینا موت کے مانند ہے ۔ دیکھا جائے تو خودی کی تعمیر میں ہی خدائی اوصاف پوشیدہ ہوتے ہیں ۔
رائی زورِ خودی سے پربت پربت ضعفِ خودی سے رائی
معانی: پربت: پہاڑ ۔ رائی: چھوٹے چھوٹے دانے ۔
مطلب: ایک معمولی سے انسان میں بھی خودی کا جذبہ پرورش پا رہا ہو تو پہاڑ کی مانند بلند و مستحکم ہوتا ہے ۔ اس کے برعکس اس میں خودی نہ ہو تو وہ کسی بھی حیثیت کا حامل نہیں رہتا ۔
تارے آوارہ و کم آمیز تقدیر وجود ہے جدائی
مطلب: ستاروں کا جائزہ لو تو اندازہ ہو گا کہ وہ آسمان کو درخشاں کر نے کے باوجود ایک دوسرے سے الگ الگ آوارہ سرگرداں پھر رہے ہیں ۔ اس سے یہ مطلب اخذ کرنا مناسب ہو گا کہ کسی بھی شے کا مقدر جدائی کا حامل ہوتا ہے ۔
یہ پچھلے پہر کا زرد رُو چاند بے راز و نیاز آشنائی
معانی: زرد رُو چاند: جب چاند کا نور کم ہو جائے ۔
مطلب: رات کے پچھلے پہر میں چاند کا چہرہ زرد نظر آتا ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ وہ آشنائی کے راز و نیاز سے واقف ہی نہیں اور ستاروں سے جدائی کا خوف اس پر مسلط ہو گیا ہے ۔
تیری قندیل ہے ترا دل تو آپ ہے اپنی روشنائی
مطلب: اس شعر میں اقبال انسان کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ تیرا دل تو قندیل کی طرح روشن ہے تو یقینا کسی قسم کی چاندنی کا محتاج نہیں بلکہ تو تو خود ہی چراغ راہ کی طرح روشنی سے معمور ہے ۔
اک تو ہے کہ حق ہے اس جہاں میں باقی ہے نمودِ سیمیائی
معانی: سیمیائی: جادوگری ۔
مطلب: محض اک تیری ذات ہی ہے جو اس دنیا میں حقیقی وجود کی حامل ہے ۔ اس کے سوا اور جو کچھ ہے وہ مصنوعی ہونے کے ساتھ واہمہ اور خیال کی کرشمہ سازی ہے ۔ ان تمام اشعار میں علامہ نے موجود اشیاء کے بالمقابل انسانی عظمت کو پیش کیا ہے اور کسی طور پر بھی دوسری اشیاء کے مقابلے پر انسان کے احترام و وقار کو نسبتاً زیادہ اہمیت دی ہے ۔
ہیں عقدہ کشا یہ خارِ صحرا کم کر گلہَ برہنہ پائی
معانی: عقدہ کشا: راز کھولنے والا ۔ برہنہ پائی: ننگے پاؤں ۔
مطلب: اس آخری شعر میں بھی اقبال انسان سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تو اپنے سامنے کی مشکلات اور مسائل سے نہ گھبرا کہ ان مشکلات و مسائل سے عہد بر ہونا ہی تو جہد مسلسل اور عزم و ہمت کی دلیل ہے ۔ یہ درست ہے کہ ان مشکلات کو حل کرنے کے لیے تیرے پاس وسائل محدود ہیں ۔ اس کے باوجود تو اس امر کی صلاحیت رکھتا ہے کہ ان محدودوسائل کو ہی عروج کا زینہ بنائے ۔