قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کی ایک پہچان بتائی ہے کہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مومن میں فرقان پیدا کر دیتا ہے۔ اس فرقان کی بدولت انسان کو حق اور باطل میں تمیز حاصل ہو جاتی ہے۔ تقویٰ کی بدولت فرقان اسی مومن میں پیدا ہو سکتا ہے جو اپنی پہچان رکھتا ہو کیونکہ کمال تب ہی ملتا ہے کہ جب تیری نگاہ میں عیاں خود تو ہے۔ درحقیقت فرقان خود شناسی ہی کا دوسرا نام ہے جسے اقبال نے خودی سے تعبیر کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں متقین کی ایک اور پہچان یہ بتائی ہے کہ جب انھیں کوئی شیطانی خیال چھو جائے تو وہ چونک جاتے ہیں اور ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ آج کے انسان کے پاس دنیاوی تربیت کے تو بہت سے وسائل ہیں مگر روحانی تربیت کا ہر سو فقدان ہے چاہے وہ سکول ہوں کالج یا یونیورسٹیز۔ دنیاوی تربیت کے ساتھ ساتھ روحانی تربیت انسانی زندگی کا بہت اہم پہلو ہے اور اس تربیت کے بغیر انسان اپنی زندگی میں اطمینان اور سکون حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ روح اللہ تعالیٰ کا امر ہے اور اس کی تربیت وحی، الہام اور کلام سے ہی ممکن ہے۔ دراصل روحانی تربیت وہ ہے جو انسان کو اپنی شناخت بتائے اور اسے اپنے اور اللہ تعالیٰ کے قریب کر دے۔
اس لیے آج کے دور میں علامہ اقبال کا کلام نہایت اہمیت کا حامل ہے جو آج کے مادہ پرست دور میں دین اسلام کی حقانیت کا نمایاں ثبوت ہے کیونکہ یہ کلام انسان کو اپنی پہچان بتا کر ایسا مومن بناتا ہے جو خودی سے بھرپور ہو، جیسے کہ اپنے ایک شعر میں اقبال بیان کرتے ہیں کہ:۔
گر فنا خواہی ز خود آزاد شو گر بقا خواہی بخود آباد شو
مطلب: اگر تو فنا کا طالب ہے تو اپنی ذات (خودی) سے آزاد ہو جا۔
اگر بقا کی خواہش ہے تو پھر تو اپنی ذات میں آباد ہوجا۔
اردو شرح اسرار زیدی صاحب کی ہے اور فارسی شرح پروفیسر حمیداللہ شاہ ہاشمی صاحب کی ہے۔
اگر آپ اردو کلیات پی ڈی ایف میں فری حاصل کرنا چاہتے ہیں یا اپنی آراء کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے نیچے دیے گئے ای میل پر ہم سے رابطہ کریں۔
Waseem Abbas
Lahore, Pakistan
[email protected]
facebook.com/waseem1514
twitter.com/waseem1572