Please wait..

(18)

 
یہ دیرِ کہن کیا ہے انبارِ خس و خاشاک
مشکل ہے گزر اس میں بے نالہَ آتشناک

معانی: یہ دیر کہن: پرانا مندر، دنیا ۔ نالہَ آتش ناک: گرم فریادیں ۔
مطلب: اقبال بعض مراحل پر اظہار میں خاصا انتہا پسندانہ رویہ اختیار کرتے ہیں جس کا اندازہ اس نظم کے قریب قریب تمام اشعار اسی کیفیت کے مظہر ہیں ۔ چنانچہ پہلے شعر میں وہ دنیا کے قدیم بت خانے کو خس و خاشاک یعنی گھاس پھونس کے ڈھیر سے تعبیر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں سے نوائے آتش کے بغیر گزر ممکن نہیں ۔ مراد یہ ہے کہ دنیاوی اور معاشرتی مسائل کا حل اب محض عام نالہ و فریاد نہیں بلکہ اس مقصد کے لئے عملی جدوجہد کی ضرورت ہے خواہ اس عمل میں آتشیں کردا درکار ہو ۔

 
نخچیرِ محبت کا قصہ نہیں طولانی
لطفِ خلشِ پیکاں ، آسودگیِ فتراک

معانی: نخچیر محبت: محبت کا قیدی ۔ خلشِ پیکاں : تیر کی چبھن عشق کے لیے مزیدار ہے آسودگیِ فتراک: تیر رکھنے کا تواہرا ۔
مطلب: محبت کے دام میں گرفتار ہونے والے لوگوں کا معاملہ بس اسی قدر ہے کہ تیر عشق سے گھائل ہوئے پھر محبوب کے ہو کر رہ گئے ۔ یہاں اقبال نے عشق و محبت کا معاملہ بڑے سادہ اور مختصر الفاظ میں پیش کیا ہے ۔

 
کھویا گیا جو مطلب ہفتاد و دو ملت میں
سمجھے گا نہ تو جب تک بے رنگ نہ ہو ادراک

معانی: ہفتا دو ملت: 72 فرقے ۔ بے رنگ نہ ہو ادراک: عقل میں فرقہ پرستی کا کوئی رنگ نہ ہو ۔
مطلب: اسلام میں جو فرقہ بندیوں کی لعنت وجود پذیر ہو گئی ہے اس کے ادراک کے لیے ایسے ذہن کی ضرورت ہے جو خود فرقہ بندی اور اس سے جنم لینے والی منافقت سے پاک ہو ۔

 
اک شرعِ مسلمانی، اک جذبِ مسلمانی
ہے جذبِ مسلمانی سرِ فلک الافلاک

معانی: علامہ اس شعر میں ایک نکتے کی توجیح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک شے تو اسلامی شریعت ہوتی ہے اور ایک اسلامیت سے جذب و عشق کی کیفیت ہے اور آخر الذکر کیفیت ہی فی الاصل افلاک کے پوشیدہ رازوں میں سے ایک ہے ۔

 
اے رہروِ فرزانہ، بے جذبِ مسلمانی
نے راہِ عمل پیدا نے شاخِ یقین نمناک

معانی: اس شعر میں اقبال پچھلے شعر کی تشریح میں اضافہ کرتے ہوئے خود فرماتے ہیں کہ جذب و عشق کے بغیر نہ راہ عمل کا ادراک ممکن ہے نا ہی یقین و اعتماد میں تازگی اور استحکام آتا ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جذب و عشق کے بغیر راہ عمل کا تعین ممکن نہیں ۔

 
رمزیں ہیں محبت کی گستاخی و بیباکی
ہر شوق نہیں گستاخ ہر جذب نہیں بے باک

مطلب: عشق حقیقی کی شدت اور انتہا یہ ہے کہ وہ محبت کرنے والے کو ایک حد تک گستاخ بھی بنا دیتا ہے اور بے خوف بھی ۔ عشق حقیقی تو انسان کو ہر شے سے بے نیاز کر کے اپنے نقطہ نظر پر ڈٹ جانے کی تلقین کرتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ عشق حقیقی میں وہ جوش و خروش اور جذبہ ہوتا ہے کہ اس کیفیت کو قبول کرنے پر محبوب بھی قید ہو جاتا ہے ۔ تاہم اس حقیقت کو بھی جان لینا چاہیے کہ عشق کا ہر جذبہ اس نوع کی گستاخی اور بے باکی کا مظہر نہیں ہوتا ۔

 
فارغ تو نہ بیٹھے کا محشر میں جنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک، یا دامنِ یزداں چاک

مطلب: ابتدائی شعر کی تشریح کرتے ہوئے اس نظم میں اقبال کے اظہار میں جس نوع کی انتہاپسندی کا اشارہ دیا گیا تھا یہ آخری شعر اس کا واضح ثبوت ہے ۔ فرماتے ہیں کہ میرا جذبہ عشق مجھے روز محشر بھی بیٹھنے نہیں دے گا چنانچہ وہاں اس امر کا خدشہ ہے کہ دیوانگی کے عالم میں یاتو اپنے گریباں کی دھجیاں اڑا کر رکھ دوں گا یا پھر خدائے لم یزل کا دامن میرے ہاتھ میں ہو گا ۔ اس آخری شعر میں اقبال اس صورت حال کے عملی پہلو کا اظہار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ کہ عشق حقیقی کا خوگر جس طرح عالم فانی میں محبوب کے ساتھ گستاخی و بے باکی کا مظاہرہ کر سکتا ہے اسی طرح روزِ محشر بھی وہ خوش جنوں میں یہ سب کچھ کیوں نہ کر گزرے گا ۔