رخصت اے بزمِ جہاں
(ماخوذ از ایمرسن )
رُخصت اے بزمِ جہاں ! سوئے وطن جاتا ہوں میں آہ! اس آباد ویرانے میں گھبراتا ہوں میں
معانی: ایمرسن: مشہور امریکی شاعر، فلسفی، مقالہ نگار ۔ بزمِ جہاں : دنیا کی محفل ۔ سوئے وطن: وطن کی طرف ۔ آباد ویرانہ: یہ دنیا جو دیکھنے میں آباد ہے لیکن شاعر کا ہم خیال کوئی نہیں ۔
مطلب: جیسا کہ بتایا گیا ہے یہ نظم اقبال کی طبع زاد نہیں بلکہ ایمرسن کی ایک نظم سے ماخوذ ہے ۔ اس کے باوجود اکثر مقامات پر اس نظم میں علامہ کے فکر و نظریات کی جھلک موجود ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس دنیا سے میرا دل اچاٹ ہو چکا ہے یہ دنیا تو ایک ایسی آبادی کی مانند ہے جو عملی سطح پر ایک ویرانے کی حیثیت رکھتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میرا دل اس سے گھبرانے لگا ہے ۔
بسکہ میں افسردہ دل ہوں ، درخورِ محفل نہیں تو مرے قابل نہیں ہے، میں ترے قابل نہیں
معانی: بسکہ: بہت زیادہ ۔ درخورِ محفل: بزم یا دوسروں کے ساتھ مل بیٹھنے کے لائق ۔
مطلب: حقیقت یہ ہے کہ میں اتنا افسردہ دل ہو چکا ہوں کہ کسی طرح کی محفل آرائی کو پسند نہیں کر سکتا ۔ بس اے دنیا اب تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ نہ ہی تو میرے قابل ہے اور نا ہی میں تیرے قابل ہوں ۔
قید ہے دربارِ سلطان و شبستانِ وزیر توڑ کے نکلے گا زنجیرِ طلائی کا اسیر
معانی: دربارِ سلطان: مراد حکمران، حکمرانوں کے دربار یا محل ۔ شبستان: رات گزارنے کی جگہ، مراد محل ۔ زنجیرِ طلائی: سونے کی زنجیر، مراد سرکاری ، درباری پابندی ۔
مطلب: یہ دنیا امیر و وزیر اور بادشاہوں کے درباروں میں گرفتار ہو کر رہ گئی ہے اور جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے تو ان زنجیروں کو توڑ کر آزاد فضا میں سانس لینے کا خواہاں ہوں ۔
گو بڑی لذّت تری ہنگامہ آرائی میں ہے اجنبیت سی مگر تیری شناسائی میں ہے
معانی: ہنگامہ آرائی: مراد دنیا کی رونق، چہل پہل ۔ اجنبیت: غیریت، ناواقف ہونے کی حالت ۔ شناسائی: واقفیت، اپنائیت ۔
مطلب: یہ تسلیم کہ تجھ میں جو زندگی اور رونق ہے وہ ہر شخص کے لیے بیشک کشش انگیز ہے ۔ اس کے برعکس میرے لیے تو تیرا وجود اجنبی کا حامل ہے ۔
مدتوں تیرے خود آراؤں سے ہم صحبت رہا مدتوں بے تاب موجِ بحر کی صورت رہا
معانی: خود آرا: مراد خود کو بڑا ظاہر کرنے والے ۔ ہم صحبت: پاس بیٹھنے اٹھنے والا ۔ موجِ بحر: سمندر کی لہر ۔ صورت: مانند ۔
مطلب: یہ درست ہے کہ ایک عرصے تک ان خود پسند اور متکبر لوگوں کے درمیان زندگی گزار رہا ہوں جو تیرے دامن میں پناہ لیے ہوئے ہیں ۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ ہر ممکن برداشت کے باوجود ان کے مابین اس طرح سے مضطرب اور تڑپتا رہا جس طرح کہ سمندر کی بے چین موج مضطرب اور پریشان رہتی ہے ۔ مراد یہ کہ یہ ماحول سدا سے میرے لیے ناقابل برداشت ہی رہا ۔
مدتوں بیٹھا ترے ہنگامہَ عشرت میں میں روشنی کی جستجو کرتا رہا ظلمت میں میں
معانی: ہنگامہَ عشرت: مراد عیش و عشرت کی محفلیں ۔ ظلمت: تاریکی ۔
مطلب: بزم جہاں سے مخاطب ہوتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں ایک مدت تک تیرے ہنگاموں میں شریک رہا ہوں لیکن یہ عرصہ ایک طرح سے بیکار ہی ضائع ہوا ۔ میں نے ہر چند کوشش کی کہ اس ظلمت کدے سے روشنی پالوں لیکن کچھ حاصل نہ کر سکا ۔
مدتوں ڈھونڈا کیا نظارہَ گل، خار میں آہ، وہ یوسف نہ ہاتھ آیا ترے بازار میں
معانی: ڈھونڈا کیا: تلاش کرتا رہا ۔ نظارہَ گل: پھول کو دیکھنے کی کیفیت ۔ خار: کانٹا ۔ یوسف: مراد محبوب، حسین ۔ ہاتھ نہ آنا: نہ ملنا، حاصل نہ ہونا ۔
مطلب: یہ میری راہ کے کانٹے تھے جن میں مدتوں پھول کے نظارے تلاش کرتا رہا لیکن تیرے بازار میں اس یوسف کو نہ پا سکا ۔ مراد یہ ہے کہ ہر ممکن سعی کے باوجود میں حصول مدعا میں ناکام رہا ۔
چشمِ حیراں ڈھونڈتی اب اور نظارے کو ہے آرزو ساحل کی مجھ طوفان کے مارے کو ہے
معانی: چشم حیراں : حیرانی میں ڈوبی ہوئی نگاہ ۔ طوفان کا مارا: مراد ٹھوکروں پر ٹھوکر کھا کر بھی مقصد حاصل نہ کر سکا ۔
مطلب: اب تو کیفیت یہ ہو چکی ہے کہ میری آنکھیں ایک اور نظارے کی متلاشی ہیں جو اس امر کی آرزومند ہیں کہ میں جو طوفان میں گھرا ہوا ہوں اس کی ساحل تک رسائی ہو جائے ۔
چھوڑ کر مانندِ بو تیرا چمن جاتا ہوں میں رخصت اے بزمِ جہاں ! سوئے وطن جاتا ہوں میں
معانی: بو: خوشبو ۔ چمن: مراد دنیا ۔
مطلب: چنانچہ تیرے چمن کو اس طرح سے چھوڑ کر جا رہا ہوں جس طرح سے کہ پھول سے خوشبو رخصت ہوتی ہے ۔ اس صورت میں تجھ سے اے بزم جہاں رخصت ہو کر اپنے حقیقی وطن جا رہا ہوں ۔
گھر بنایا ہے سکوتِ دامنِ کہسار میں آہ! یہ لذت کہاں موسیقیِ گفتار میں
معانی: دامن کہسار: پہاڑ کی وادی ۔ موسیقی گفتار: باتوں کی سر تال یعنی باتیں ۔
مطلب: نظم کے اس حصے میں اس دوسرے منظر کی نشاندہی کرتے ہیں جو بقول ان کے حقیقی وطن بننے کی اہلیت رکھتا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ میں نے اس وطن میں رہنے کے لیے جو گھر بنایا ہے وہ دامن کہسار میں واقع ہے اور وہاں ایک ایسا سکوت ہے جس کے مقابلے میں آواز کی موسیقیت میں بھی لطف نہیں ہوتا ۔
ہم نشینِ نرگسِ شہلا، رفیقِ گل ہوں میں ہے چمن میرا وطن، ہمسایہَ بلبل ہوں میں
معانی: ہم نشیں : ساتھ بیٹھنے والا ۔ نرگسِ شہلا: ایک زرد یا سیاہ رنگ کا پھول جس کی شکل آنکھ سے ملتی جلتی ہے ۔
مطلب: یہاں مجھے نرگس اور گلاب کے پھولوں کی ہم نشینی اور رفاقت حاصل ہے ۔ یہاں کا گلستاں ہی میرا وطن ہے ۔ جہاں بلبل کے گھونسلے کی قربت میں میرا گھر واقع ہے
شام کو آواز چشموں کی سُلاتی ہے مجھے صبح فرشِ سبز سے کوئل جگاتی ہے مجھے
معانی: فرشِ سبز: مراد سبزہ ۔ کوئل: سیاہ رنگ کا خوش آواز پرندہ ۔
مطلب: اس خوبصورت ماحول میں چشموں کی مست آوازیں مجھے نیند سے ہم کنار کرتی ہیں اور صبحدم کوئل کی کوک میرے لیے بیداری کا پیغام دیتی ہے ۔
بزم ِ ہستی میں ہے سب کو محفل آرائی پسند ہے دلِ شاعر کو لیکن کنجِ تنہائی پسند
معانی: محفل آرائی: باہم مل بیٹھنا ۔ کُنج تنہائی: ایسی الگ تھلگ جگہ جہاں کوئی اور نہ ہو ۔
مطلب: اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی زندگی میں خواص و عوام ہر لمحے محفل آرائی اور ہنگاموں کو پسند کرتے ہیں اس کے برعکس مجھ ایسے شاعر کو تو ایسا گوشہ مرغوب ہے جو ہر طرح سے پر سکون ہو ۔
ہے جنوں مجھ کو کہ گھبراتا ہوں آبادی میں ، میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں کس کو کوہ کی وادی میں ، میں
مطلب: نظم کے اس حصے میں اقبال ایک بار پھر اپنی کیفیت اور اضطراب کا احوال بیان کرتے ہوئے یوں گویا ہوتے ہیں کہ میں تو شاید سودائی ہو گیا ہوں کہ آبادی سے گھبراہٹ ہونے لگی ہے ۔ بار بار خود ہی اس سوچ میں گم ہو رہا ہوں کہ وہ کون سی ہستی ہے جس کو دامن کوہ میں تلاش کرنے آ نکلا ہوں ۔
شوق کس کا سبزہ زاروں میں پھراتا ہے مجھے اور چشموں کے کناروں پر سُلاتا ہے مجھے
معانی: شوق: عشق ۔ سبزہ زار: جہاں سبزہ بہت ہو ۔
مطلب: ایسا کس چیز کا شوق ہے جو مجھے ان سبزہ زاروں میں سرگرداں کیے ہوئے ہے اور جس کے سبب میں چشموں کے کناروں پر محو استراحت ہوتا ہوں ۔
طعنہ زن ہے تو کہ شیدا کنجِ عزلت کا ہوں میں دیکھ اے غافل! پیامی بزمِ قدرت کا ہوں میں
معانی: طعنہ زن: طعنے مارنے والا ۔ شیدا: محبت کرنے والا ۔ پیامی: پیغام لے جانے والا، قاصد ۔
مطلب: اے بزم جہاں ! تو مجھے یہ طعنہ دے رہی ہے کہ میں تنہائی کا عادی ہو گیا ہوں حالانکہ تجھے اس حقیقت کا علم ہی نہیں کہ میں تو فطرت اور اس کے مظاہر کو پیش کرنے والا ہوں ۔
ہم وطن شمشاد کا، قمری کا میں ہم راز ہوں اس چمن کی خامشی میں گوش بر آواز ہوں
معانی: ہم وطن: ایک ہی شہر ، ملک کے باشندے ۔ شمشاد: سرو کی طرح کا لمبا درخت ۔ قُمری: فاختہ ۔ ہم راز: ایک دوسرے کے بھید جاننے والے ۔
مطلب: میں تو صنوبر کے درخت کی قربت سے استفادہ کر رہا ہوں اور قمری کے رازوں سے بھی آگاہی رکھتا ہوں ۔ ہر چند کہ یہ چمن جہاں میں مقیم ہوں پر سکوت ہے لیکن اس کی خاموشی میں بھی کچھ ایسی آوازیں ہیں جن کو میں سننے کا اہل ہوں ۔
کچھ جو سنتا ہوں تو اوروں کو سنانے کے لیے دیکھتا ہوں کچھ تو اَوروں کو دکھانے کے لیے
مطلب: اور یہاں جو کچھ سنتا ہوں اس کو دوسروں تک بھی پہنچاتا ہوں ۔ مزید برآں جو کچھ دیکھتا ہوں وہ دوسروں کو دکھانے کی سعی بھی کرتا ہوں ۔
عاشقِ عزلت ہے دل، نازاں ہوں اپنے گھر پہ میں خندہ زن ہوں مسندِ دارا و اسکندر پہ میں
معانی: خندہ زن: ہنسی، مذاق اڑانے والا ۔ مسند: مراد تخت ۔ دارا: ایران کا قدیم بادشاہ جسے سکندر اعظم نے شکست دی تھی ۔ سکندر: سکندر اعظم ۔
مطلب: بے شک میں تنہائی کا عاشق ہوں لیکن میرا دل اپنے اسی گھر پر ناز کرتا ہے ۔ اس کے مقابلے پر دارا اور سکندر جیسے شان و شوکت رکھنے والے بادشاہوں کے عشرت کدے میرے نزدیک انتہائی مضحکہ خیز ہیں ۔
لیٹنا زیرِ شجر رکھتا ہے جادو کا اثر شام کے تارے پہ جب پڑتی ہو رہ رہ کر نظر
معانی: زیرِ شجر: درخت کے نیچے ۔ جادو کا اثر: مراد آدمی پر پر کیف حالت طاری کرنا ۔ رہ رہ کر: بار بار ۔
مطلب: جب کسی درخت کے زیر سایہ شب کو محو استراحت ہوتا ہوں اور اس عالم میں آسمان پر چمکتے ہوئے تاروں پر نظر پڑتی ہے تو مسحور ہو کر رہ جاتا ہوں ۔
علم کے حیرت کدے میں ہے کہاں اس کی نمود گل کی پتی میں نظر آتا ہے رازِ ہست و بود
معانی:علم کا حیرت کدہ: مراد فلسفہ کا فلسفی کائنات پر حیران تو ہوتا ہے لیکن اس کے بھید اور حقیقت کو نہیں پا سکتا ۔ رازِ ہست و بود: مراد کائنات، موجودات کی حقیقت، بھید ۔
مطلب: مجھے تو پھول کی پتی سے ہی موت اور زندگی کے پوشیدہ اسرار کا انکشاف ہو جاتا ہے ۔ جب کہ علم و فلسفے میں میرے نزدیک یہ خصوصیت ناپید ہے ۔