ساقی
نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے مزا تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی
معانی:: مراد قوم کے رہنما، مصلحین ۔ نشہ: شراب ۔ گرتوں کو تھام لینا: جو گر رہے ہیں انھیں سنبھالنا، پستیوں سے نکالنا ۔
مطلب: اس نظم کے اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال اپنے عہد کے بعض ایسے رہنماؤں پر طنز کیا ہے جو ذاتی مفاد کے لئے اپنے پیرووَں کو مذہب اور سیاست کے نام پر استعمال کرتے تھے ۔ فرماتے ہیں شراب پلا کر ہر کوئی دوسرے کو بدمست اور مدہوش کر سکتا ہے اور اس بدمستی اور مدہوشی میں پینے والا زمین پر ہی گرتا ہے لیکن ساقی کا کام محض مدہوش کرنا ہی نہیں ہے بلکہ گرتے ہوؤں کو تھامنا بھی ہے ۔ مطلب یہ کہ ذاتی مفاد کے لئے دوسروں کو پستی سے ہمکنار کرنا تو سب کو آتا ہے تاہم حقیقی رہنمائی کا لطف اس عمل میں ہے کہ پستی میں گرنے والے کو سہارا دے ۔
جو بادہ کش تھے پرانے، وہ اٹھتے جاتے ہیں کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی
معانی:: بادہ کش : شراب پینے والے ۔ اٹھتے جاتے ہیں : اس دنیا سے جا رہے ہیں ۔ آبِ بقائے دوام: ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کا پانی، آبِ حیات ۔
مطلب: جو پرانے لوگ مے نوشی کے عادی تھے وہ تو بتدریج فنا کے گھاٹ اترتے جا رہے ہیں چنانچہ یہ امر لازم ہو گیا ہے کہ انہیں آب حیات پلا کر بقائے دوام سے ہم کنار کیا جائے ۔
کٹی ہے رات تو ہنگامہ گستری میں تری سحر قریب ہے، اللہ کا نام لے ساقی
معانی:: ہنگامہ گستری میں : فتنہ و فساد پھیلانے میں ۔ سحر: صبح، اچھے دن ۔
مطلب: اے ساقی تو نے ساری عمر تو اسی قسم کے ہنگاموں میں گزاری ہے اب جب کہ تو عمر کے آخری مراحل میں ہے سب ہنگامے چھوڑ کر اللہ اللہ کر لے کہ یہی آخرت میں کام آئے گا ۔ مراد یہ ہے کہ خود ساختہ اور مفاد پرست رہنماؤں کا کردار عام لوگوں کے لئے زہر قاتل سے کم نہیں ۔ خدا کرے وہ عبرت حاصل کر سکیں ۔