رباعیات
(۹)
تمیز خار و گل سے آشکارا نسیمِ صبح کی روشن ضمیری
معانی: تمیز خار و گل: کانٹے اور پھول میں فرق ۔ نسیم صبح: صبح کی نرم اور لطیف ہوا ۔ آشکارا: ظاہر ۔
مطلب: صبح کی نرم و لطیف ہوا کے عمل کی وجہ سے گلاب کے پودے کی شاخوں پر پھول بھی کھلتے ہیں اور کانٹے بھی پیدا ہوتے ہیں ۔ اس عمل سے جہاں پھول میں نرمی پیدا ہوتی ہے کانٹے میں سختی اور چبھن کی صفات آ جاتی ہیں ۔ ایسا نہیں ہوتا کہ دونوں میں سختی آ جائے یا دونوں میں نرمی پیدا ہو جائے ۔ یہ تمیز نرم و سخت اس بات کی دلیل ہے کہ نسیم صبح اپنا عمل کرتے وقت اس بات کو مدنظر رکھتی ہے کہ پھول میں سختی اور کانٹے میں نرمی نہ آنے پائے ۔ یہ تمیز روا رکھنے کی صلاحیت اس کے خالق نے رکھی ہوئی ہے ۔
حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے اگر کانٹے میں ہو خوئے حریری
معانی: حریری: ریشم کے کپڑے کی سی نرم طبیعت ۔
مطلب: ضمیر تو ایک بے شعور شے ہے اس میں تمیز روا رکھنے کی یہ صلاحیت اس کے خالق نے رکھی ہوئی ہے ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے سورج میں تپش اور چاند میں ٹھنڈک رکھی ہوئی ہے اسی طرح وہ نسیم صبح کے عمل سے پھول میں نرمی اور کانٹے میں سختی پیدا کرتا ہے اس کے پیچھے مصلحت یہ ہے کہ اگر کانٹا بھی نرم ہوتا اور اس میں چبھن نہ ہوتی تو پھول تک ہر کسی کا ہاتھ آسانی سے اور بلا تکلف پہنچ سکتا تھا لیکن اب ہر ہاتھ کو کانٹے کی چبھن سے بچ کر پھول تک رسائی حاصل کرنی پڑتی ہے ۔ اس مثال سے علامہ اقبال یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کے جو دو الگ الگ طبقات پیدا کئے ہیں ان میں اس نے عورت کو پھول کی طرح نرم و نازک بنایا ہے اور مرد کو سخت ۔ عورت کو عصمت و عفت کا پیکر اور مرد کو قوت اور جوانمردی کا مجسمہ بنایا ہے ۔ اس تمیز کی بنا پر زندگی میں دونوں کے دائرہ کار ہائے الگ الگ رکھے ہیں ۔ مرد اگر اپنے دائرہ کار سے نکل کر عورت کے دائرہ کار میں آ جائے اور عورت مرد کے دائرہ کار میں آ جائے تو معاشرے میں خلل پیدا ہو جائے گا جیسا کہ فی زمانہ عورت کے مرد کے دائرہ کار میں آ جانے کی وجہ سے پیدا ہو چکا ہے ۔ پھول اور کانٹے کی مثال سے علامہ یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ خیر اور اچھائی کو شر اور بدی سے بچانے کے لیے قوت ضروری ہے ۔ یہ صورت حال بھی عہد حاضر میں پیدا ہو چکی ہے ۔ قوموں کو غلام بنانے کے لیے اور ان کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے لیے تو ہر قسم کی قوت استعمال کی جارہی ہے ۔ لیکن خیر اور نیکی کی حفاظت کے لیے جو قوت درکار ہے وہ کہیں نظر نہیں آتی ۔ بلکہ بعض حالات میں تو قوت بدی اور شر کے پھیلاوَ کے لیے استعمال کی جا رہی ہے ۔
(۱۰)
نہ کر ذکرِ فراق و آشنائی کہ اصلِ زندگی ہے خودنمائی
معانی: فراق: جدائی ۔ آشنائی: واقفیت، وصل ۔ خودنمائی: اپنے آپ کو ظاہر کرنا ۔
مطلب: جدائی اور وصل کا ذکر نہ کر کیونکہ اصل زندگی اپنے آپ کو ظاہر کرنے میں ہے ۔ اس مثال سے علامہ روح اور جسم کے تعلق کی بات واضح کرنا چاہتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں آنے سے پہلے ہر آدمی روح کی شکل میں عالم ارواح میں ہوتا ہے جو کہیں لا مکاں میں ہے ۔ جب وہ ماں کے پیٹ سے بچہ کی شکل میں باہر آتا ہے تو وہ روح جو عالم ارواح میں اس سے متعلق ہوتی ہے اس کے جسم میں داخل ہو جاتی ہے ۔ اس طرح روح کو اپنی صلاحیتوں اور اپنی انا کے ظہور کا موقع مل جاتا ہے ۔
نہ دریا کا زیاں ہے نے گہر کا دلِ دریا سے گوہر کی جدائی
معانی: زیاں : نقصان ۔ گہر:موتی ۔
مطلب: اگر دریا میں سے موتی نکال کر الگ کر لیا جائے تو اس سے نہ دریا کا نقصان ہے نہ موتی کا ۔ بلکہ اس سے الگ ہونے سے موتی کا ظہور ہو جاتا ہے ۔ اس عمل انتقال و فراق سے نہ عالم ارواح میں کوئی کمی آتی ہے اور نہ روح کا کوئی نقصان ہوتا ہے بلکہ الٹا روح کو فائدہ پہنچتا ہے کہ وہ جسم آدمی میں آ کر اپنی خودی کا ظہور کر سکتی ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ اپنی خودی سے نا آشنا کہیں عالم ارواح ہی میں پڑی رہتی ۔
(۱۱)
تیرے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
معانی: خودی: اپنی پہچان ۔
مطلب: اے مرد مسلمان تیری زندگی کے دریا میں طوفان کیوں نہیں ہے یہ حرکت و عمل سے کیوں بے گانہ ہو گئی ہے ۔ اس کا سبب صرف یہ ہے کہ تیری خودی ابھی تک مسلمان نہیں ہوئی ۔
عبث ہے شکوہَ تقدیرِ یزداں تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے
معانی: عبث: فضول ۔ شکوہ: شکایت ۔ تقدیر یزداں : خدا کی تقدیر ۔
مطلب: اس بنا پر تو خدا کی تقدیر کی شکایت کر رہا ہے ۔ یہ شکایت فضول ہے ۔ خودی کو مسلمان کر تا کہ خدا تیری تقدیر کو تیری مرضی کے مطابق بنائے اور تیری زندگی میں حرکت و عمل پیدا ہو ۔ اس رباعی میں بات کی گئی ہے کہ آدمی جب تک اپنی انا کی صلاحیتوں کو جان کر ان کو اجاگر نہیں کرتا اس وقت تک اس کی انا کافر رہتی ہے ۔ اس کو مسلمان کرنے کا طریقہ صرف یہی ہے کہ اطاعت الہٰی اور اطاعت رسول ﷺ اختیار کر کے نفس امارہ کو جو اسے کافر بنائے ہوئے ہے راستہ سے ہٹا دیا جائے ۔ جب اس عمل سے اے مرد مسلمان تیری خودی بھی مسلمان ہو جائے گی تو تیرے دریائے زندگی میں سعی و عمل کی لہریں بھی پیدا ہو جائیں گی اور تو تقدیر کا شکوہ کرنے کے بجائے اپنی تقدیر خود بنا سکے گا ۔ یہ کہنا کہ خدا نے ہماری پیدائش کے ساتھ ہی ہماری تقدیر میں سب کچھ لکھ دیا ہے اور جو کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے وہ اس کا لازمی نتیجہ ہے ۔ حقیقت تقدیر یہ ہے کہ جب آدمی صاحب ایمان ہونے کے بعد اپنی خودی کو پہچان کر اس کو بھی صاحب ایمان کر لیتا ہے اور زندگی کے ہر لمحہ میں اور ہر موڑ پر اپنی مرضی کو اپنے خالق کی مرضی میں گم کر کے اس کی پوری عبودیت اختیار کر لیتا ہے تو پھر خدا اس کی تقدیر کو اس کی مرضی کے مطابق شکل دے دیتا ہے جیسا کہ ہمارے اسلاف اور بزرگوں کی زندگیوں سے ظاہر ہے ۔
(۱۲)
خرد دیکھے اگر دل کی نگہ سے جہاں روشن ہے نورِ لا الٰہ سے
معانی: خرد: عقل ۔ لا الہ: کلمہ طیبہ کی طرف اشارہ ہے جس کا مفہوم ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔
مطلب: اگر ہم جہان کو چاند اور سورج کی اس گردش کے اعتبار سے دیکھیں جس کی وجہ سے اس میں شام اور صبح ہونے کا عمل جاری ہے تو جہان کا وجود مادہ کی وجہ سے نظر آئے گا ۔ اگر جہان کو اس طرح دیکھنے والی عقل اپنی راہ چھوڑ کر وجدان کی راہ اختیار کرے اور دل کی نظر سے اسے دیکھے تو اس پر یہ راز کھل جائے گا کہ جہان سورج اور چاند کی وجہ سے روشن نہیں ہے بلکہ لا الہ کے نور سے روشن ہے ۔
فقط اک گردشِ شام و سحر ہے اگر دیکھیں فروغِ مہر و مہ سے
معانی: فقط: صرف ۔ فروغ: چمک دمک ۔ مہر: سورج ۔ مہ: چاند ۔
مطلب: چاند ستاروں اور سورج کی روشنی بھی اسی نور سے پیدا ہوئی ہے ۔ اس رباعی میں اقبال نے مادہ پرستوں کے اس نظریہ کو پیش کرتے ہوئے کہ جہان مادہ سے پیدا ہواے ہے ۔ اس کی نفی کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ جہان اللہ تعالیٰ کے نور کی وجہ سے موجود ہے ۔ کائنات اور اس کی ہر شے کو اگر دل کی آنکھ وا کر کے دیکھا جائے تو ہمیں ہر ذرہ میں اس کے خالق اللہ تعالیٰ کے نور کا ظہور ملے گا ۔ قرآن کریم کی آیت اللہ نور السموات والارض (اللہ زمینوں آسمانوں کا نور ہے) اسی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ وجودی صوفیا کی طرح اقبال بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کائنات اور اس کی کسی بھی شے کا وجود حقیقی نہیں بلکہ امتیازی ہے ۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور اسما کے نور کی وجہ سے وجود میں آئی ہے ۔ اس لیے اسے موجود تو کہہ سکتے ہیں اس کا وجود تسلیم نہیں کر سکتے ۔ وجود صرف ایک ہے اللہ کا جو خودبخود قائم ہے ۔ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ اسی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔ عبادت کے لائق صرف وہی ہے جو از خود قائم ہے ۔ جس کو کسی نے وجود نہیں دیا ۔ باقی ہر شے چونکہ اس کے وجود کی وجہ سے وجود رکھتی ہے اور از خود قائم نہیں اس لیے وہ اس قابل نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے یا اس کو رب تسلیم کیا جائے یا اسے خدا کی طرح کا ازخود قائم وجود تسلیم کیا جائے ۔ یہی توحید اصلی ہے اگر دو وجود تسلیم کئے جائیں ایک خدا کا اور دوسرا کائنات کا تو شرک لازم ٹھہرے گا ۔