ابرِ کہسار
ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن میرا ابرِ کہسار ہوں ، گل پاش ہے دامن میرا
معانی: ابرِ کہسار: پہاڑ کا بادل ۔ فلک بوس: آسمان کو چومنے والا ۔ نشیمن: ٹھکانا، مسکن ۔ گل پاش: پھول بکھیرنے والا ۔
مطلب: ابر کہسار مکالمہ کرتا ہے کہ میری مستقل بودوباش تو آسمانوں کو چھونے والے بلند و بالا پہاڑوں پر رہتی ہے ۔ لیکن زمین پر پھول بکھیرتا رہتا ہوں یعنی جب تک نہ برسوں پھولوں کی نمود ممکن نہیں ۔
کبھی صحرا، کبھی گلزار ہے مسکن میرا شہر و ویرانہ مرا، بحر مرا، بن میرا
معانی: گلزار: جہاں گلاب کے پھول زیادہ ہوں ، باغ ۔ بن: جنگل ۔
مطلب: کبھی صحرا میں برستا ہوں اور کبھی باغوں پر بارش برساتا ہوں ۔ اس اعتبار سے شہروں کے علاوہ ویران مقامات اور کبھی جنگل پر بھی میرا تسلط رہتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ جب بادل برستے ہیں تو زمین پر موجود تمام مقامات کو سیراب کرتے ہیں ۔
کسی وادی میں جو منظور ہو سونا مجھ کو سبزہَ کوہ ہے مخمل کا بچھونا مجھ کو
معانی: سبزہَ کوہ: پہاڑ پر اگا ہوا سبزہ ۔ مخمل کا بچھونا: مراد نرم آرام دہ بچھونا ۔
مطلب: ابر کہسار کہتا ہے کہ کبھی پہاڑوں کی وادیوں میں برستا ہوں تو وہاں اگا ہوا سبزہ جو مخمل کی مانند ہوتا ہے وہی میری آماجگاہ بن جاتا ہے ۔
مجھ کو قدرت نے سکھایا ہے دُر افشاں ہونا ناقہَ شاہدِ رحمت کا حُدی خواں ہونا
معانی: درافشاں : موتی بکھیرنے والا ۔ ناقہ: اونٹنی ۔ شاہدِ رحمت: رحمت کا محبوب مراد رحمت ۔ حُدی خواں : قافلے کے اونٹوں کو تیز چلانے کے لیے خاص اشعار پڑھنے والا ۔
مطلب: قدرت نے مجھے بارش کی بوندوں کی شکل میں ز میں پر موتی برسانا سکھایا ہے کہ یہ بوندیں موتیوں سے مشابہت رکھتی ہیں ۔ میں جب برستا ہوں تو ان لمحات میں بوندوں کے گرنے سے جو خوبصورت اور دلکش آوازیں پیدا ہوتی ہیں ان کو رحمت باری کے لیے نغمہ سیرائی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔
غم زدائے دلِ افسردہَ دہقاں ہونا رونقِ بزمِ جوانانِ گلستاں ہونا
معانی: غم زدا: دکھ منانے والا ۔ دلِ افسردہ: بجھا ہوا مایوس دل ۔ دہقاں : کسان ۔ جوانانِ گلستان: مراد پھول ۔
مطلب: اور جب خشک و بنجر کھیتوں پر برستا ہوں تو ان کی آبیاری سے کسانوں کے پژمردہ دل مسرتوں اور خوشیوں سے لبریز ہو جاتے ہیں اور جب باغوں میں برستا ہوں تو وہاں پھلوں اور پھولوں پر تازگی اور شباب جھلکی اٹھتا ہے ۔
بن کے گیسو رُخِ ہستی پہ بکھر جاتا ہوں شانہَ موجہَ صر صر سے سنور جاتا ہوں
معانی: گیسو: زلفیں ، سیاہ رنگ کی طرف اشارہ ۔ رُخِ ہستی: زندگی، دنیا کا چہرہ ۔ موجہَ صرصر: آندھی کی لہر ۔ سنور جانا: سلیقے سے سمٹ جانا ۔
مطلب: میرا وجود تو حیات و کائنات کے لیے ایک دل خوش کن حیثیت کا مالک ہوتا ہے اور جب ہوائیں چلتی ہیں تو مجھے یکجا ہو کر زمین پر برسنے اور اسے نکھارنے میں مدد دیتی ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ بادل جب برستے ہیں تو نہ صرف یہ کہ فصلوں کی کاشت میں اضافہ ہوتا ہے، باغات میں پھل پھول کو زندگی اور نمو بخشتے ہیں بلکہ زمین کے حسن و زیبائش کا سبب بھی بنتے ہیں ۔
دور سے دیدہَ امید کو ترساتا ہوں کسی بستی سے جو خاموش گزر جاتا ہوں
معانی: دیدہَ امید: وہ آنکھیں جو رحمت کی آس لگائے ہوتی ہیں ۔
مطلب: اگر میں کسی بستی پر سے برسے بغیر گزر جاتا ہوں تو جو کسان اور باغبان میرے برسنے کے منتظر ہوتے ہیں وہ نا امیدی اور مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس عالم میں رحمت باری تعالیٰ کے طلبگار نظر آتے ہیں ۔ ان کی امیدیں تشنہ رہ جاتی ہیں اور میرے برسنے کی دعائیں مانگتے ہیں ۔
سیر کرتا ہوں جس دم لبِ جو آتا ہوں بالیاں نہر کو گرداب کی پہناتا ہوں
معانی: لبِ جو: ندی کا کنارہ ۔ بالیاں : جمع بالی، کانوں کے بندے ۔
مطلب: پھر جب کسی ندی پر زور شور کے ساتھ برستا ہوں تو اس کے پانی میں بھنور سے پڑنے لگتے ہیں ۔
سبزہَ مزرعِ نوخیز کی امید ہوں میں زادہَ بحر ہوں ، پروردہَ خورشید ہوں میں
معانی : مزرع: کھیتی ۔ نوخیز: نئی نئی اگی ہوئی ۔ زادہَ بحر: سمندر کی اولاد ۔ پروردہَ خورشید: جسے سورج نے پالا ہو ۔
مطلب: حقیقت تو یہ ہے کہ میرے دم سے تازہ اگی ہوئی فصلیں اور باغوں کے سبزہ زار قائم ہیں میں ان کے لیے امید و آس کی حیثیت رکھتا ہوں ۔ میں سمندر سے پیدا ہوا ہوں اور سورج نے میری پرورش کی ہے ۔ فطری اور سائنسی اصولوں کے مطابق سورج کی گرمی سے سمندر کا پانی بھاپ بن کر اڑتا ہے پھر بادل کی شکل اختیار کر لیتا ہے اقبال نے اسی نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
چشمہَ کوہ کو دی شورشِ قلزم میں نے اور پرندوں کو کیا محوِ ترنم میں نے
معانی: شورشِ قلزم: سمندر کا سا اونچا شور ۔ محو ترنم: چہچہانے میں مصروف ۔
مطلب: پہاڑوں سے برآمد ہونے والے چشموں کو میں نے ہی سمندر جیسا جوش و خروش عطا کیا ۔ میر ے سبب ہی گرمی کے مارے پرندے سکھ کا سانس لے کر نغمہ سرا ہوتے ہیں ۔
سر پہ سبزے کے کھڑے ہو کے کہا قُم میں نے غنچہَ گل کو دیا ذوقِ تبسم میں نے
معانی: ذوقِ تبسم: مسکرانے یعنی کھلنے کا شوق ۔ قم: اٹھ کھڑا ہو ۔
مطلب: میری وجہ سے ہی پامال اور مرجھایا ہوا سبزہ پھر سے لہلہانے لگتا ہے اور یہ میں ہی ہوں کہ جب باغوں پر برستا ہوں تو غنچے چٹک کر خوشنما اور خوشبودار پھولوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں یعنی میرے بغیر یہ سب کچھ ممکنات سے نہیں ہے ۔
فیض سے میرے نمونے ہیں شبستانوں کے جھونپڑے دامنِ کہسار میں دہقانوں کے
معانی: شبستانوں : جمع شبستان، رات گزارنے کی جگہیں ۔ دامن کہسار: پہاڑ کا پہلو ۔
مطلب: میرے ہی فیض و برکت سے پہاڑوں کے دامن میں کسانوں کے جھونپڑوں میں بھی رونق آتی ہے اس لیے کہ میرے سبب ان کی کھیتیاں لہلہاتی ہیں اور انہیں خوشحالی عطا کرتی ہیں ۔ میں ان کے لیے مسرتوں کا باعث بنتا ہوں ۔